"ZIC" (space) message & send to 7575

سُرخیاں‘ متن اور تازہ غزل

جیالو‘ میرے بچوں بلاول آصفہ اور بختاور کا خیال رکھنا: آصف زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''جیالو‘ میرے بچوں بلاول‘ بختاور اور آصفہ کا خیال رکھنا‘‘ بلاول تو میرے ساتھ ہی ہوگا اور ہم ایک دوسرے کا خیال رکھتے رہیں گے‘ جبکہ بختاور اور آصفہ نے ہمارے جیسا کوئی کام کیا ہی نہیں‘ اس لیے اُن کا خیال رکھنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں‘ جبکہ بختاور اور آصفہ ایک دوسرے کا خیال خود رکھ سکتی ہیں اور فریال بھی ماشاء اللہ ہمارے ساتھ ہی ہوں گی‘ جن کا خیال رکھنے کیلئے برخوردار مراد علی شاہ کافی ہوں گے‘ بلکہ ان کے ساتھ میرا اور بلاول کا بھی خیال رکھیں گے‘ نیز انہیں قائم علی شاہ کا بھی خیال رکھنا پڑے گا اور ان پر اتنے بوجھ کی وجہ سے شاید اُن کا بھی خیال رکھنے کی ضرورت پڑ جائے‘ جس کیلئے میرے لاتعداد فرنٹ مین‘ وہاں یہ فرض انجام دیا کریں گے۔ آپ اگلے روز کراچی میں کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
تمام مسائل حکومت گرانے ہی سے حل ہوں گے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''تمام مسائل حکومت گرانے سے حل ہوں گے‘‘ مع خاکسار کے مسئلے کے‘ کیونکہ اصل مسئلہ تو وہی ہے‘ یعنی ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں‘ بلکہ حکومت کے لیے بہتر ہے کہ اس فرض کی ادائی کے ذریعے گرنے سے بچ جائے ‘ورنہ وہ خود سوچے کہ حکومت گری ہوئی کتنی بُری لگے گی؛ اگرچہ گرا ہوا میں خود اُس سے بھی بُرا لگوں گا‘ کیونکہ گرا ہوا آدمی کوئی بھی راستہ اختیار نہیں کر سکتا ‘کیونکہ اس کے اختیار میں یہ تک نہیں ہوتا کہ گرتے وقت سیدھا ہونا ہے یا اُلٹایا کس کروٹ پڑے ہونے کا منظر پیش کرنا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ چِت گرنا سب سے زیادہ مفید اور بہتر ہو گا‘ جبکہ ویسے بھی شاعر نے گرنے والوں کے بارے میں کیا خوب کہا ہے کہ: ع
گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں
آپ اگلے روز پنوں عاقل میں ''معارف القرآن‘‘ کی نئی عمارت کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
مہنگائی کی وجہ سے عوام دو کی بجائے ایک روٹی کھائیں: سپیکر پختونخوا
سپیکر پختونخوا اسمبلی مشتاق غنی نے کہا ہے کہ ''مہنگائی کی وجہ سے عوام دو کی بجائے ایک روٹی کھائیں‘‘ اور جنہیں ایک روٹی بھی میسر نہیں ہے‘ ان کا تو یہ مسئلہ ہی نہیں ہے کہ کتنی روٹیاں کھائیں ‘جو پیٹ بھر کے ہوا کھا سکتے ہیں‘ کیونکہ ہوا یہاں بالکل مفت دستیاب ہے اور اس کے ساتھ کسی سالن وغیرہ کی بھی ضرورت نہیں پڑتی‘ بلکہ اس ڈش کے ساتھ پانی بھی نہیں پینا پڑتا ‘جبکہ یہ زود ہضم بھی ہوتی ہے اور ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ہوا کھانے سے کسی کا پیٹ خراب ہو گیا ہو؛ حتیٰ کہ آدمی لیٹرین جانے کی صعوبت سے بھی بے نیاز ہو جاتا ہے‘ جبکہ ہوا کھانے کے بعد نہایت خوش ذائقہ اور خوشبودار ڈکار بھی آتے ہیں اور یہ ہوا؛ اگر کسی باغ میں جا کر کھائیں‘ تو ڈکاروں سے اُٹھنے والی مہک کا اندازہ لگایا ہی نہیں جا سکتا اور اس کا ایک اور فائدہ بھی ہے کہ ہوا کھانے کے بعد آدمی ہوائی قلعے بھی تعمیر کر سکتا ہے اور چہرے پر بھی ہوائیاں اُڑنے لگتی ہیں۔ آپ اگلے روز پشاور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
سیلیکٹرز سے اس بار غلطی ہو گئی‘وزیر اعظم
عمران خان سے سب مایوس ہیں: خورشید شاہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ''سیلیکٹرز سے اس بار غلطی ہو گئی‘ عمران خان سے سب مایوس ہیں‘‘ حالانکہ سیلیکٹرز کو اچھی طرح سے معلوم تھا کہ اب ہماری باری ہے‘ لیکن اپنی درخشندہ روایات کے برعکس اپنوں نے باری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہمارے ساتھ سخت حق تلفی کا مظاہرہ کیا ہے‘ نہ ہماری کوئی دھمکی کارگر ہوتی ہے‘ نہ خوشامد‘ جو کہ دیگرے دونوں ارزانی کرتے رہتے ہیں اور اب مقدمات کا پھندہ ہمارے گلے میں ڈال دیا گیا ہے اور پلی بار گین کی پیشکشیں بھی وہ کی گئی ہیں کہ جس سے ہمارے قائدین مفلوک الحال ہو کر رہ جائیں‘ جو کہ سخت ناانصافی ہے‘ نیز میرے آج والے بیان کا ہی کوئی خیال کر لیا جاتا کہ کرپشن سیاستدانوں کو پکڑنے سے ختم نہیں ہو سکتی‘ جبکہ کرپشن کا علاج بھی مزید کرپشن ہے ‘جس طرح کہ جمہوریت کا علاج بھی مزید جمہوریت ہے ‘لیکن یہاں عقل کی بات پر کوئی کان ہی نہیں دھرتا۔ آپ اگلے روز سکھر میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں اس ہفتے کی یہ تازہ غزل:
تجھ سے بیزار بھی ہو سکتا ہوں
کچھ سمجھدار بھی ہو سکتا ہوں
ہے جو رُک رُک کے یہ ہونا میرا
میں لگاتار بھی ہو سکتا ہوں
بات جس کا نہیں کوئی مطلب
اُس کا اظہار بھی ہو سکتا ہوں
ابھی تعمیر ہوئی ہے میری
ابھی مسمار بھی ہو سکتا ہوں
میرا اثبات کیا ہے سب نے
اپنا انکار بھی ہو سکتا ہوں
جستجو چھوڑ چکا ہوں‘ لیکن
خود سے دوچار بھی ہو سکتا ہوں
یوں تو بیکار پڑا ہوں کب سے
قابلِ کار بھی ہو سکتا ہوں
کہیں سے کوئی خریدار تو آئے
جنسِ بازار بھی ہو سکتا ہوں
خود ہی دریا کی رکاوٹ ہوں‘ ظفرؔ
ایک دن پار بھی ہو سکتا ہوں
آج کا مطلع
کوئی امید نہیں‘ کوئی انتظار نہیں
مگر یہ صورتِ احوال ناگوار نہیں

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں