سی ڈی اے پلاٹوں کی نیلامی بے حد کامیاب رہی: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''سی ڈی اے پلاٹوں کی نیلامی بے حد کامیاب رہی‘‘ جس سے اربوں روپے حاصل ہوئے ہیں، اس لئے میں نے کہہ دیا ہے کہ ایک سروے کر کے بتایا جائے کہ ملک میں اور کیا کچھ ہے جو نیلام کیا جا سکتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس ملک میں اس قدر وسائل موجود ہیں کہ جن کی نیلامی سے اسے اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے اور ہمیں جگہ جگہ جا کر پیسے مانگنے کی ضرورت نہیں رہے گی کیونکہ ویسے بھی اب کوئی ملک ایسا نہیں بچا جس سے کچھ مانگا جا سکے جبکہ کئی ملک تو اب اس حالت میں ہیں کہ ہمیں پیسے دینے کے بعد خود مانگنے پر مجبور ہو جائیں گے، اس لئے دوسرے ملکوں کو قلاش کرنے سے بہتر ہے کہ اپنے ملک کی چیزیں نیلام کر کے خود کفیل ہونے کی کوشش کی جائے اس کے علاوہ موجود مؤکلوں سے بھی گزارش کی گئی ہے کہ اس سلسلے میں تعاون کر کے شکر گزار ہونے کا موقعہ دیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
میرے خلاف انکوائری نہیں ہو رہی: خسرو بختیار
وفاقی وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار نے کہا ہے کہ ''میرے خلاف آمدنی سے زائد اثاثوں کی انکوائری نہیں ہو رہی‘‘ اور یہ کام صرف اپوزیشن کے خلاف ہو رہا ہے کیونکہ حکومت اپوزیشن کا بے حد احترام کرتی ہے اور اس کا حق فائق سمجھتی ہے اور چونکہ احتساب بلاامتیاز ہو رہا ہے اسی لئے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے چھوٹے بڑے افراد میں کوئی تمیز نہیں کی جا رہی اور مساوات کا طریقۂ کار اختیار کیا جا رہا ہے جبکہ میںنے انہیں سکندر یونانی کی مثال بھی پیش کی تھی جس پر وہ اَش اَش کر اُٹھے تھے اور میں نے بچپن میں جو تاریخ پڑھ رکھی ہے، اس سے فائدہ اگر اب نہ اٹھایا تو کب اٹھاؤں گا، نیز میں تو اس قدر درویش آدمی ہوں کہ میرے پاس اپنے اثاثوں کا کوئی حساب کتاب ہی نہیں ہے کیونکہ میں نے بچپن میں تاریخ ہی پڑھی تھی ریاضی وغیرہ نہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل میں گفتگو کر رہے تھے۔
کٹھ پتلی وزیراعظم سے ملک سنبھالا نہیں جا رہا: بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''کٹھ پتلی وزیراعظم سے ملک سنبھالا نہیں جا رہا‘‘ اور اس کی جگہ ہم ہوتے تو ملک کو سنبھال کر دکھاتے کیونکہ اگر ملک کا سارا سرمایہ سنبھال لیا جائے تو یوں سمجھیے کہ سارا ملک ہی سنبھل گیا جس کے لئے جعلی اکاؤنٹس وغیرہ کا سہارا لینا پڑتا ہے جبکہ اتنے بڑے ملک کا سارا سرمایہ سنبھالنے کے لئے جس ہنر مندی کی ضرورت ہے وہ صرف والد صاحب کے پاس ہے، تاہم والد صاحب کے برعکس میں جیل سے کافی ڈرتا ہوں اور اگر ایک بار اُن کے ساتھ چلا گیا تو میرا ڈر بھی ختم ہو جائے گا، اوّل تو جس دلیری سے یہ کام کئے جاتے ہیں اس کے بعد ڈر خود بخود ہی ختم ہو جاتا ہے اور میں نے وہ لات سنبھال کر رکھی ہے جسے مار کر میں نے حکومت کو گرانا ہے۔ آپ اگلے روز گھوٹکی میں جلسۂ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
نیب ماضی میں زرداری کے خلاف
کیس ثابت نہیں کر سکا: مرتضیٰ وہاب
وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ ''نیب ماضی میں زرداری کے خلاف کوئی کیس ثابت نہیں کر سکا‘‘ اور آئندہ بھی ثابت نہیں کر سکے گی کیونکہ وائٹ کالر کرائمز ثابت کرنا کوئی خالہ جی یا پھوپھی صاحبہ یا ممانی صاحبہ کا گھر نہیں ہے جبکہ ان معزز خواتین کو محاورے میں خواہ مخواہ گھسیٹ لیا گیا ہے جس سے ان بزرگ خواتین کی بیحد حق تلفی ہوئی ہے، اس لئے اُردو لغت بورڈ اور دیگر ایسے اداروں کو اس کا نوٹس لینا چاہئے جبکہ اسی طرح مختلف محاوروں میں نانی اماں کو شامل کر کے اس کی بزرگی کا مذاق اُڑایا گیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مذاق کیا جاتا ہے، اُڑایا نہیں جاتا کیونکہ یہ کوئی پرندہ نہیں ہوتا بلکہ اسی طرح اکثر پرندوں کو بھی محاوروں میں خواہ مخواہ ڈال دیا گیا ہے مثلاً کوّا چلا ہنس کی چال، طوطا چشمی، اڑتی چڑیا کے پَر گننا اور چڑیوں کا سارا کھیت چگ جانا، نیز بھوکے بٹیر کا زیادہ لڑنا اور مرغے کی ایک ٹانگ وغیرہ۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کر رہے تھے۔
پاؤں، گاؤں اور ناؤ
محبی محمد اظہار الحق نے آسٹریلیا سے، جہاں آج کل وہ پہنچے ہوئے ہیں، پوچھا ہے کہ آپ کا ایک مصرع ہے ؎
پاؤں پر پاؤں جو رکھنا تو دبا بھی دینا
جبکہ احسان دانش کا مصرع ہے ؎
کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کی ناؤ پر
یہاں پاؤں اور ناؤ کس وزن پر آئے ہیں؟
میں نے عرض کیا کہ یہ تینوں لفظ بشمول گھائو اور ناؤں وغیرہ ہندی کے ہیں، اس لئے ان کا نون غنہ اور واؤ ساکت ہو جاتے ہیں اس لئے پاؤں پا کے وزن پر آئے گا اور ناؤ ناکے وزن پر، جبکہ اساتذہ نے بھی انہیں اسی وزن پر باندھا ہے۔ فی الحال غالب کی مثال دیکھئے:
اسدؔ خوشی سے مرے ہاتھ پاؤں پھول گئے
کہا جب اُس نے ذرا میرے پاؤں داب تو دے
بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ ان کا صرف ہمزہ بولا جائے گا، واؤ نہیں۔ انہیں فعل کے وزن پر باندھا جائے گا، پورے وزن کے ساتھ یعنی فعلن، کے وزن پر نہیں باندھا جا سکتا۔ اسی طرح لفظ چھاؤں بھی اس وزن میں آئے گا، مثلاً
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
اگرچہ فیض صاحب نظم کو ہمیشہ نظَم یعنی بالفتح پڑھا اور کہا کرتے تھے جو صحیح نہیں ہے، یا اب وقت کو بالعموم وقَتَ بولا جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
آج کا مطلع
پتا نہیں ابھی کتنی ، کہاں سے ہٹ کر ہے
مری زمین ترے آسماں سے ہٹ کر ہے