"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘متن اور شعر و شاعری

کرپشن کارڈ استعمال کر کے جمہوریت ختم کی جاتی ہے: بلاول بھٹو 
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''کرپشن کارڈ استعمال کر کے جمہوریت ختم کی جاتی ہے‘‘ اور چونکہ بیچارے کرپٹ لوگوں کو اندر کر دیا جاتا ہے اور جمہوریت کا خاتمہ شروع ہو جاتا ہے‘ اس لئے ضروری ہے کہ جمہوریت کو اپنی میعاد پوری کرنے دی جائے اور شرفاء کو اندر کرنے کا کام بعد میں کیا جائے‘ تاکہ اگر کرپشن میں کوئی کسر رہ گئی ہو تو وہ بھی پوری کر لیں‘ کیونکہ ایک کروڑ کی کرپشن میں بھی اُتنی ہی سزا ہے‘ جتنی ایک ارب یا زائد کی کرپشن میں ہے اور پھر ستم بالائے ستم یہ ہے کہ منی لانڈرنگ کو بھی کرپشن قرار دیا جا رہا ہے اور جس کا مطلب ہے کہ آئندہ مکان کو سفیدی کرانے اور لانڈری میں کپڑے بھیجنے پر بھی کرپشن عائد ہو جائے گی؛ حالانکہ کسی کالی چیز کو سفید کرنا بجائے خود ایک مستحسن اقدام ہے۔ آپ اگلے روز کوئٹہ میں ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
عوام کھانے پینے کی اشیاء محفوظ کر لیں کہ بعد میں 
یہ چیزیں دیکھی ہی جا سکیں گی: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اور نواز شریف کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''عوام کھانے پینے کی اشیاء محفوظ کر لیں‘ مہنگائی کے بعد یہ دیکھی ہی جا سکیں گی‘‘ جس طرح ہم نے سارا پیسہ محفوظ کر لیا تھا اور نئی حکومت کے پاس دیکھنے کو بھی نہیں بچا تھا اور وہ باہر سے مانگ مانگ کر اسے دیکھ رہی ہے اور ہمارے قائدین اسے بھی للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہیں کہ اگر موقعہ ملے تو اسے بھی محفوظ کر لیا جائے‘ تاکہ اسے دیکھنے کیلئے ایک بار پھر باہر سے منگوانا پڑے‘ کیونکہ یہ ڈالروں میں آتا ہے‘ جن کا نام سُن کر ہی مُنہ میں پانی بھر جاتا ہے؛ حالانکہ ملک میں پانی کی اس قدر ریل پیل ہو گئی ہے کہ بارشیں تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہیں اور جب ہن برستا ہے تو بارشوں ہی کی طرح چھپر پھاڑ کر گرتا ہے‘ لیکن اب تو یہ خواب ہی ہو کر رہ گیا ہے اور چھپروں سے بارش کے ساتھ ساتھ اولے بھی برس رہے ہیں‘ جبکہ ہماری سابقہ حکومت نے ابھی ابھی سرمنڈایا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
فواد‘ بینک کا نام بتائیں ‘جو زرداری نے خریدا: قمر زمان کائرہ
پاکستان پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر اور مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ '' فواد اُس بینک کا نام بتائیں‘ جو زرداری نے خریدا‘‘ کیونکہ زرداری صاحب خود تو اس کا نام بتاتے ہوئے شرماتے ہیں اور کہتے ہیں یہ میرا پرائیویٹ مسئلہ ہے‘ پارٹی کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ‘ تاہم یہ کوئی چھوٹا موٹا بینک ہی ہوگا‘ ورنہ بڑا بینک زرداری صاحب کیسے خرید سکتے ہیں‘ تاہم اگر خریدا بھی ہو تو اب پیسے واپس کرنے کیلئے اُسے فروخت ہی کرنا پڑے گا ‘جبکہ پھر بھی وہ کہہ سکیں گے کہ وہ ایک بینک کے مالک بھی رہے ہیں‘ کیونکہ زمینیں اور شوگر ملیں وغیرہ تو اب ہر ایرے غیرے کے پاس بھی ہیں‘ تاہم وہ جعلی اکاؤنٹس کا راز کسی کو نہیں بتائیں گے کہ یہ اُن کا ٹاپ سیکرٹ ہے۔ آپ اگلے روز پیپلز پارٹی سیکرٹریٹ لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
مہنگائی کے پیش نظر کم از کم تنخواہ اٹھارہ 
ہزار روپے مقرر کی جائے: شہباز شریف
سابق خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''مہنگائی کے پیشِ نظر مزدور کی کم از کم تنخواہ اٹھارہ ہزار روپے مقرر کی جائے‘‘ کیونکہ اگر خدانخواستہ سارے پیسے واپس کرنا پڑ گئے تو شاید مزدوری ہی کرنا پڑے اور تنخواہ کم از کم اتنی تو ہو کہ گزارہ ہو سکے‘ کیونکہ پورے کے پورے پیسوں سے کم پر بات نہیں بن رہی اور کسی شریف آدمی کو پیسے پیسے کا محتاج کر دینا پرلے درجے کی زیادتی ہے‘ جبکہ زیادتیوں کی بھی قسمیں اور درجے ہوتے ہیں‘ جیسے کہ ریل میں فسٹ کلاس کے ساتھ ساتھ تھرڈ کلاس بھی ہوتی ہے اور بقول شاعر '' بندئہ مزدور کے اوقات تو ویسے ہی بہت تلخ ہوتے ہیں‘‘ اور مجھے مزدوروں سے اس لئے بھی محبت ہے کہ میں مزدور شاعر حبیب جالبؔ کے اشعار اکثر اپنی تقریروں میں پڑھا کرتا تھا ‘جبکہ بھائی صاحب تو باقاعدہ ترنم کے ساتھ پیش کیا کرتے تھے ‘جبکہ اگلا گلا ذرا خراب ہونے کی وجہ سے میں تحت اللفظ ہی میں پیش کر دیا کرتا تھا۔ آپ اگلے روز سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
اور‘ آب آخر میں کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
مغرور تھا بہت اُسے مجبور کر دیا
قسمت نے راجپوت کو مزدور کر دیا
آتشِ عشق ہے‘ کس طرح بجھے یہ کیفیؔ
اس پہ پانی بھی تو ڈالا نہیں جا سکتا ہے
جُستجو کے کسی جہان میں ہے
دل پرندہ ابھی اُڑان میں ہے
میں اُسے دیکھتا ہوں‘ وُہ مجھ کو
صرف آئینہ درمیان میں ہے
مار سکتا ہوں‘ مر بھی سکتا ہوں
آخری تیر بس کمان میں ہے
ٹوٹے ہیں بہت سے خواب لیکن
اک شہر بسا لیا گیا ہے
خود ہاتھ سے مارنے کی خاطر
دشمن کو بچا لیا گیا ہے (محمود کیفیؔ‘ سیالکوٹ)
صاحباں! تیرے فریبِ حسن میں
عشق گھوڑے بیچ کر سوتا رہا (نعیم ضرار)
دونوں نے دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہمیں اسدؔ
پردہ نشیں بھی تھے‘ کئی مسند نشیں بھی تھے
کب بھلا آزادیاں ہیں دم بہ دم
ہر طرف آبادیاں ہیں دم بہ دم (اسدؔ اعوان)
آج کا مطلع
شعر کہنے کا بہانہ ہوا تُو
میری جانب جو روانہ ہوا تُو

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں