عامرؔ سہیل کا تعلق بہاول نگر سے ہے‘ جہاں وہ ایک کالج میں تدریسی فرائض انجام دیتے ہیں۔وہ اپنے مخصوص لب لہجے کی بناء پر‘ جو اُن کی شناخت بن چکا ‘ جانے جاتے ہیں۔ان کا تازہ کلام پیش ِخدمت ہے:
آنکھوں میں پری زاد‘ پری زاد محبت
کافر تھا وہ‘ کی جس نے ہے ایجاد محبت
کس درد کی تبلیغ کروں بعدِ عشا میں
ہر یاد کے بلوے میں تری یاد محبت
وہ بھول بھی جائے‘ وہ ہمیں بھول بھی جائے
نس نس میں تو ہو سکتی ہے آباد محبت
میرا بھی یہاں کوئی نہیں تیرے علاوہ
میں بھی تو محبت میں ہوں برباد محبت
چہرے کا فسوں لٹتا ہے‘ روتے ہیں عناصر
ہو جاتی ہے ہر جرگے سے آزاد محبت
یہ کون زمانہ ہے جہاں میں ہوں نہ تو ہے
یہ کون سی مشکل ہے ترے بعد محبت
احسان جتاتے ہوئے بالوں کا بکھرنا
اک سینے پہ تازا ہے یہ افتاد محبت
جامد ہے رگ و پے میں نہ تتلی نہ ستارہ
پتھر کے قبیلے کی ہے فرہاد محبت
سو جاتی ہے تفتان کے بارود پہ ٹھٹھری
لیلیٰ نہ الف الیلیٰ نہ بغداد محبت
............
آگ پانی خرید سکتے ہو
حسن یعنی خرید سکتے ہو
اس کی مہماں نواز آنکھوں سے
میزبانی خرید سکتے ہو
اُتنی انگڑائیاں کرو محفوظ
جتنے معنی خرید سکتے ہو
اس گِل و لا‘ کا ایک اک کردار
ہر کہانی خرید سکتے ہو
کوئی وعدہ‘ کوئی نیا وعدہ
چھیڑخانی خرید سکتے ہو
رنگ و روغن کی دھار کہتی ہے
تم جوانی خرید سکتے ہو
اتنے خواجہ سرائوں کے بدلے
ایک رانی خرید سکتے ہو
بیچ سکتے ہو دشت کی مٹی
راجدھانی خرید سکتے ہو
کہکشائوں کی گھورتی رنگت
منہ زبانی خرید سکتے ہو
حور ملتی نہیں زمینی تو
آسمانی خرید سکتے ہو
جسم چنری سے دودھیا عامرؔ
خواب دھانی خرید سکتے ہو
یمن کی حمد
یمن کو سمیٹو یمن چومکھی ہے
یمن ایشیاء سے زیادہ دکھی ہے
یمن بدلحاظی کے سورج سے بھڑکو
یمن آئو کعبے کی مٹھی میں دھڑکو
ایک سپارا
جس پہ گرتا اشک تمہارا
ایک سپارا
ایک عبادت
روز دعا دینے کی عادت
ایک عبادت
بور بہت ہو
اُس حلیے میں آئو
جس میں شور بہت ہو
حسن ِ سماوی
دریا پانی چھوڑ کے بھاگا
لیڈی گاگا
یہ بچپن یہ سرخ پراگا
لیڈی گاگا
حسن غلافی تاگا تاگا
لیڈی گاگا
ہند میں تم اور انڈس ساگا
لیڈی گاگا
............
جمالِ خال و خد میں گم بہت ہو
ہماری شاعری میں تم بہت ہو
کھلیں گی کب مرے بچپن کی آنکھیں
کہ اب تو ہو گئیں پچپن کی آنکھیں
کسی کے کاغذی سینے پہ عامرؔ
خدا کے بعد میرے دستخط ہیں
آج کا مطلع
کچھ پتا چلتا نہیں کس طرح کی آواز تھی
ان اندھیروں میں یہ تُو تھا یا تری آواز تھی