نواز شریف کی بیماری پر سیاست افسوسناک ہے: شہباز شریف
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''علاج کرانا نواز شریف کا حق ہے‘ بیماری پر سیاست افسوسناک ہے‘‘ کیونکہ بات تو اتنی سی ہے کہ وہ اپنا علاج لندن میں کروانا چاہتے ہیں ‘جہاں سے انہوں نے ایک ہیئر ٹرانسپلانٹ کے کلینک سے بائی پاس کروایا تھا اور وہ ٹھیک بھی ہو گئے تھے اور‘ اگر وہ قیدی ہیں‘ تو پھر کیا ہوا؟ ایک قیدی کا حق تو دوسروں سے بھی زیادہ ہوتا ہے اور جب تک وہ ٹھیک نہیں ہوتے ‘اُن کا قیام وہیں رہے گا ‘جبکہ وہاں بھی وہ ایک قیدی ہی کی حیثیت سے رہیں گے اور‘ اسی طرح؛ اگر کسی اور قیدی کو باہر جا کر علاج کرانے کی تمنا ہو اور وہ خرچہ بھی کر سکتا ہو تو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اگرچہ ماضی میں اس طرح کی کوئی نظیر نہیں ملتی‘ تو یہ بھی تو نظیر ہی قائم ہوگی‘ جس کے حوالے بعد میں دیئے جاتے رہیں گے۔ آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر سے ایک پیغام نشر کررہے تھے۔
سرور بزدار اور کوئی وزیر کہیں نہیں جا رہا: صمصام بخاری
وزیر اطلاعات پنجاب سید صمصام بخاری نے کہا ہے ''چودھری سرور‘ عثمان بزدار اور کوئی وزیر کہیں نہیں جا رہا‘‘ جس طرح سابق وزیر خزانہ کو فارغ کر دیا گیا‘ لیکن وہ کہیں نہیں گئے اور یہیں لگے پھرتے ہیں‘ اسی طرح مندرجہ بالا اصحاب بھی ‘اگر فارغ ہو گئے تو یہیں رہیں گے اور کہیں نہیں جائیں گے اور یہیں دندناتے پھریں گے‘ جبکہ ایک دوسرے کے خلاف بیان دینا تو جمہوریت کا حسن ہے ‘جس کو یہ لوگ چار چاند لگا رہے ہیں‘ ماشاء اللہ‘ چشمِ بددُور‘ جبکہ انہیں نظر بھی جلدی لگتی ہے‘ اس لئے ان کی نظر اُتارنے کا کام بھی اجتماعی طور پر کیا جاتا ہے‘ جس کیلئے باقاعدہ ایک وزارت قائم کی جا رہی ہے‘ جس پر کسی بھی فارغ وزیر کو لگایا جا سکتا ہے‘ جبکہ عملی طور پر تو یہ تمام حضرات پہلے ہی فارغ ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف بیان دینے اور پریس کانفرنسیں کر کے جمہوریت کا حسن دوبالا کرتے رہتے ہیں۔ آپ لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
صدارتی نظام کی سازش کو مل کر ناکام بنائینگے:بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''صدارتی نظام کی سازش کو مل جل کر ناکام بنائیں گے‘‘ بلکہ اس کے لیے اکیلے والد صاحب ہی کافی ہیں ‘جو فی الحال فارغ نہیں ہیں اور حکومت کی انتقامی کارروائیوں کا شکار ہیں‘ تاہم صدارتی نظام بھی اٹھارہویں ترمیم ختم کرنے جیسا ہی ایک ڈھکوسلا ہے ‘جس کے بارے سپریم کورٹ بھی فیصلہ دے چکی ہے اور آئین میں بھی اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اگرچہ‘ آئین میں جعلی اکائونٹس کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے‘ تاہم گنجائش تو ہر کام کے لئے نکالی جا سکتی ہے اور جس میں صرف کاریگری ہی کام آتی ہے ‘جبکہ کاریگری بھی کہیں سے سیکھی نہیں جاتی ‘بلکہ یہ وصف قدرتی ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں عاصمہ جہانگیر فورم کے تحت منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
رمضان بازاروں کی مانیٹرنگ ‘ اب عوام کو حقیقی ریلیف دینگے:بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''رمضان بازاروں کی مانیٹرنگ خود کروں گا‘ اب عوام کو حقیقی ریلیف دیں گے‘‘ کیونکہ اب تک جو غیر حقیقی ریلیف دے رہے تھے‘ وہ عوام کو کچھ راس نہیں آیا؛ حالانکہ وہ خود بھی کچھ اتنے زیادہ حقیقی نہیں اور خاصے جعلی لگتے ہیں اور اگرچہ حقیقی ریلیف ان کے لئے ایک اجنبی چیز ہوگی۔ اس لیے زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ اسے قبول ہی نہیں کریں گے ‘لیکن میں اس سے کوئی خاص فرض نہیں ہے اور ہم نے اس بات کی کھوج لگانا شروع کر دیا ہے کہ حقیقی ریلیف آخر ہوتا کیا ہے۔آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں اس ہفتے کی غزل:
اب کیا چھپائیں آپ سے کیا کیا ہے جھوٹ مُوٹ
بس دیکھتے ہی جائیں‘ تماشا ہے جھوٹ مُوٹ
ہے حالِ دل ملا جُلا‘ اب کیا بتائیے
کتنا ہے اس اصل تو کتنا ہے جھوٹ مُوٹ
حاصل وصول کچھ بھی نہیں ہے جو آج تک
یہ رابطہ ہمارا تمہارا ہے جھوٹ مُوٹ
سارے ہی اپنی اپنی اداکاریوں میں ہیں
صدمہ ہے جھوٹ مُوٹ‘ دلاسا ہے جھوٹ مُوٹ
غالبؔ کی طرح جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
یعنی یقین کیجیے سچا ہے جھوٹ مُوٹ
کچھ ہم کو پیش کرنے کا موقع تو دیجیے
سچ اپنا بھول جائیں گے‘ ایسا ہے جھوٹ مُوٹ
اپنا تو واسطہ ہے اسی سے پڑا ہوا
عقبیٰ تو آپ جانیے‘ دنیا ہے جھوٹ موٹ
جاری ہیں سارے کام اسی طرح سے تو پھر
بخشش کہاں سے ہو گی کہ توبہ ہے جھوٹ مُوٹ
یہ کاروبارِ سلطنتِ خواب ہے‘ ظفرؔ
فرضی ہے بادشاہ‘ رعایا ہے جھوٹ مُوٹ
آج کا مقطع
یہ شاعری نہیں مری کھیتی ہے اے ظفرؔ
رہتا ہوں خاص پیشۂ ابا کے آس پاس