"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن‘ ریکارڈ کی درستی‘ دیگر احوال اور رفعت ناہید

مدارس کے تحفظ کیلئے ایسے لڑیں گے‘ جیسے انگریز سے لڑے : فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''مدارس کے تحفظ کے لیے ایسے لڑیں گے‘ جیسے انگریز سامراج سے لڑتے تھے‘‘ البتہ اپنی قوم کیلئے نہیں لڑے تھے‘ ہمیں پتا تھا کہ یہاں حکومت مدارس کو نہیں چلنے دے گی اور ہمیں بے روزگار کر کے رکھ دیں گی اور ان کے لیے جو خدائی امداد ملتی ہے‘ ہماری گاڑی‘ اسی سے چلتی ہے اور جس کے لیے اب ملین مارچ کا تردّد کرنا پڑ رہا ہے اور اگر حکومت کی بے توجہی اسی طرح قائم رہی ‘تو اس ملین مارچ کو ملین دھرنے میں تبدیل کرنا پڑے گا؛ اگرچہ زرداری صاحب نے بھی ملین مارچ میں اپنی پارٹی کے شامل ہونے کا عندیہ دیا ہے‘ لیکن اپنی گرہ سے کچھ نہیں دیں گے ‘بلکہ الٹا ہم پر ایک اضافی بوجھ ثابت ہوں گے اور یہاں روٹیاں پھاڑنے کے علاوہ کچھ نہیں کریں گے‘ جبکہ ہم پہلے ہی کافی مقروض ہو چکے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس کے دوران میڈیا نمائندگان سے خطاب کر رہے تھے۔
حکومت ناکام‘ پشاور میں کرپشن کیوں نظر نہیں آتی: حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''پشاور میں حکومت کو کرپشن کیوں نظر نہیں آتی‘‘ جبکہ ہمارے ہاں کرپشن کے علاوہ اور کچھ بھی نظر نہیں آتا‘جبکہ ہمارے خلاف ریفرنس تیار کرنے کے علاوہ اور کوئی کام ہی نہیں ہے اورحکومت اثاثوں کے نام پر دن رات پریشان کرتی رہتی ہے‘ جبکہ یہ اللہ کی دین ہے ۔حکومت کو اپنی عاقبت کا کچھ خیال نہیں‘ بلکہ صرف ہماری عاقبت خراب کرنے میں مصروف ہے اور یہ بھی نہیں دیکھتی کہ ہم اللہ کے خاص بندے ہیں اور وہ اپنے خاص بندوں ہی کو نوازتا ہے‘ جبکہ ان نوازشات کی حفاظت اور رکھوالی بھی ہم کارِ ثواب سمجھ کر ہی کر رہے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
ریکارڈ کی درستی
اردو ہماری قومی زبان ہے۔ اس کے ساتھ ایک ظلم تو یہ ہے کہ اسے ابھی تک نافذ ہی نہیں کیا جا سکا اور دوسرا یہ کہ ہمارے ہاں اس کی جوگت‘ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا پر بنائی جا رہی ہے‘ وہ افسوسناک ہی نہیں شرمناک بھی ہے۔ کم و بیش سبھی سیاسی رہنمائوں نے عوام کو مؤنث بنا کر رکھ دیا ہے۔ وقت کو ہر جگہ وَقت کہا جا رہا ہے اور نظم کو نظم وغیرہ وغیرہ۔ ایک اشتہار میں ایک ڈاکٹر صاحبہ نظر انداز کو کئی برسوں سے نظرِ انداز کہہ رہی ہیں اور انہیں ابھی تک کسی نے نہیں روکا۔ اسی طرح جنت نظیر کو جنتِ نظیر بولا جا رہا ہے۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ جہاں فارسی کے دو لفظ اکٹھے آئیں‘ ان میں اضافت لگانا ضروری ہوتا ہے۔ ایک ٹی وی اینکر پرسن سبوخ سیّد اگلے روز ایک پروگرام میں‘ جس میں وہ خورشید ندیم صاحب کے ہمراہ اردو زبان کے اسرار و رموز اور باریکیوں پر گفتگو کر رہے تھے‘ عزت مآب کو عزتِ مآب کہہ رہے تھے اور یہ بھی فرمایا کہ '' آئندہ سے بعد‘‘۔ خورشید ندیم نے اگر انہیں ٹوکنا مناسب نہیں سمجھا تو کم از کم بعد میں ایڈیٹنگ کروا کر ان الفاظ کو درست کروا دیتے‘ لیکن ع
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
یعنی اگر پڑھے لکھے اور ذمہ دار حضرات کا یہ عالم ہے‘ تو عام لوگوں سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔
دیگر احوال
ادھر شہتوت کی فصل ختم ہو رہی ہے۔ آم کے پیڑوں سے بُور جھڑ چکا ہے اور امبیاں نکل رہی ہیں۔ گریپ فروٹ کا پھل بنٹے کے برابر ہو چکا ہے۔ لیموں بھی اکا دُکا ہی نظر آتے ہیں‘ لیکن ساتھ ہی نئے پھول بھی نکل آئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ سال میں دو فصلیں دیتا ہے۔ انار کے پھولوں نے تو کچھ دن باقاعدہ اُدھم مچائے رکھا۔ اب پھول جھڑنا اور انار لگنا شروع ہو گئے ہیں۔ ایک تازہ انکشاف یہ ہے کہ قمریوں کا ایک جوڑا ایک اے سی کے ایگزاسٹ میں بھی رہائش پذیر ہے۔ ابھی ایک ٹٹیری خاموشی کے ساتھ میرے سر پر سے گزر گئی ہے۔ یقینا یہ گونگی ہو گی‘ ورنہ ٹیٹری تو شور مچائے بغیر رہ ہی نہیں سکتی۔ پچھلے سال ایک کوئل کا ذکر کیا تھا‘ جس کا گلا بیٹھا ہوا تھا‘ پھر وہ نظر نہیں آئی۔ہو سکتا ہے‘ وہ ادھر اُدھر پھرتی بھی ہو اور اس کا گلا ٹھیک ہو گیا ہو۔ باقی پرندے معمول کے مطابق ہیں؛ البتہ بُلبلوں کی بھرمار ہے۔ ایک مزید انکشاف یہ کہ آندھی سے املتاس کے پیڑے سے بئے کا گھونسلا گر گیا تھا۔ اسے الٹا کر دیکھا تو نا صرف اس کے اوپر لوہے کے تار سے بنا ہوا ایک کنڈا تھا ‘بلکہ اس کے اندر فرش پر مٹی کی ایک پلیٹ بھی موجود تھی۔ معلوم ہوا کہ اس پرندے کی سہولت کے لیے یہاں کے کچھ فرنیچر بنانے والوں کے ہاں سے یہ بنے بنائے اس کے گھر بھی دستیاب ہیں اور‘ اب آخر میں رفعت ناہید کی یہ تازہ غزل:
پہلے تم بارش کر کر کے خوش ہو جاتے ہو
پھر آنکھوں میں پانی بھر کے خوش ہو جاتے ہو
کیوں تصویر بناتے ہو تم پچھلی رات کے خوابوں کی
انہی کو آتشدان پہ دھر کے خوش ہو جاتے ہو
کتنے خوش رہتے ہو تم‘ اپنی گہری پرچھائیں میں
پھر خود اپنے آپ سے ڈر کے خوش ہو جاتے ہو
جی لگتا ہے خاک اڑاتے کم آباد زمانوں میں
ان گلیوں میں جی کے‘ مر کے خوش ہو جاتے ہو
غور سے دیکھو آئینہ اب دھندلا ہونے والا ہے
دُور سے دیکھ کے اور سنور کے خوش ہو جاتے ہو
تم کیا جانو خستہ دیواروں کے اوٹ کے منظر کو
دیکھ کے تم دروازے گھر کے خوش ہو جاتے ہو
آج کا مقطع
ظفرؔ‘ کبھی تری محفل میں باریاب نہ تھا
سو‘ اب بھی تیرے شمار وقطار میں گم ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں