حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبات مان لیے: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبات مان لئے‘‘ لیکن ہمارا ایک مطالبہ نہیں مانا کہ حکومت ہمیں دے دی جائے اور اگر ایسا کر لیں ‘تو اُسے آئی ایم ایف کے اتنے سارے مطالبات نہ ماننے پڑتے‘ کیونکہ ہم بڑے آرام سے ملک کو دیوالیہ قرار دے دیتے اور سارے قرضے اپنے آپ ہی ختم ہو جاتے اور اس طرح ہمارے ساتھ ساتھ ملک بھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاتا اور جو عالمی پابندیاں وغیرہ لگتیں‘ اُن سے بھی عہدہ برا ہو جاتا اور نہ یہ ملک کے سر پر چڑھے ہوئے یہ بے حساب قرضے کبھی ادا نہ ہوتے‘ جبکہ اس طرح خاکسار کا نام بھی تاریخ میں جلی حروف سے لکھا جانا تھا‘ لیکن حکومت کی نالائقی دیکھیے ‘بلکہ ان اداروں کی سراسر اور افسوسناک غفلت کہ جس پر یہ ملک عرصۂ دراز تک کف ِ افسوس ملتا رہے گا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
لگتا ہے عمران کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے: خورشید شاہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ''لگتا ہے کہ عمران کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے‘‘ لیکن اس کام کے لیے اگر عوام موجود ہیں‘ تو کسی اور ڈھال کی کیا ضرورت ہے ‘جبکہ ہم اس سلسلے میں کوتاہی نہیں کرتے اور ہمیشہ عوام کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں ‘کیونکہ ایک تو یہ کافی سخت جان ہوتے ہیں؛ اگرچہ ان کو سخت جان بنانے میں بھی ہمارا ہی بنیادی کردار ہے اور یہ سب کچھ زرداری صاحب کی خاص ہدایات کے تحت کیا گیا ہے اور ملک کا زیادہ تر پیسہ اسی لیے باہر بھیجا گیا ہے کہ لوگ جفاکش ہو جائیں ‘جبکہ جفاکش ہونے کے لیے غریب اور مفلس ہونا بیحد ضروری ہے ‘کیونکہ ہم تو کھا کھا کر آرام طلب ہو چکے ہیں‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ سب کی آنکھیں جو کھل رہی ہیں‘ تو یہ سب کچھ ہمیں بھی جفاکش بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میٹ دی پریس سے خطاب کر رہے تھے۔
حکومت ڈرا دھمکا کر وفاداریاں تبدیل
کرنے پر مجبور کر رہی ہے: افضل کھوکھر
نواز لیگی رہنما اور رکن قومی اسمبلی افضل کھوکھر نے کہا ہے کہ ''حکومت ڈرا دھمکا کر وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کر رہی ہے‘‘ اس لیے ہم نے اگر وفاداری تبدیلی کر لی تو یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم یہ خوشی سے کر رہے ہیں‘ جبکہ ہماری اور کئی دوسرے حضرات کی وفاداری پہلے ہی ڈانواںڈول تھی کہ ہمارے قائد ملک سے فرار کی کوشش میں ہیں اور چھوٹے میاں پہلے ہی بیرون ملک ہیں اور ان کے بھی واپس آنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں اور ادھر ہمارا نام بھی ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ہے‘ تاکہ ہم بھی اپنے قائدین کے پاس جا کر نہ بیٹھ رہیں؛ حالانکہ ہمارے قائدین نے بھی بُزدلی کا مظاہرہ کیا ہے؛ حالانکہ جیل میں اُنہیں گھر جیسی ہی سہولیات میسر تھیں اور اگر پیسہ واپس نہیں کرنا تو جیل میں تو رہنا ہی پڑے گا‘ بلکہ بیمار ہو کر وہاں سے بھی باہر آنا اب کوئی مشکل نہیں رہا ہے۔ آپ اگلے روز رائے ونڈ میں اخباری نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
پنچایتیں قائم کریں اور مزدوروں کو تمام حقوق دیں گے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''ہم پنچایتیں قائم کریں گے اور مزدوروں کو تمام حقوق دیں گے‘‘ اس لیے کوشش کر رہے ہیں کہ پوری قوم مزدوروں میں تبدیل ہو جائے‘ تاکہ انہیں حقوق دینے میں آسانی رہے اور اس طرح مساوات کے اصولوں پر بھی عمل ہو سکے گا ‘ کیونکہ مزدور کے اوقات کبھی تبدیل نہیں ہو سکتے اور نہ ہی یہ اپنی اوقات پر آ سکتے ہیں ‘جبکہ حکومت دن میں ایک روٹی کھانے کا مشورہ پہلے ہی دے چکی ہے اور یہ بھی کہ پھل وغیرہ بھی کھانے سے پرہیز کیا جائے‘ بلکہ اگر یہ اپنی عاقبت سنوارنا چاہتے ہیں‘ تو پورا سال ہی روزے رکھیں اور شام کو ایک کھجور کے ساتھ افطاری کر کے‘ اللہ اور حکومت کا شکر ادا کریں‘ جبکہ ملک میں کھجوروں کی کوئی کمی نہیں ہے کہ سندھ میں کھجوروں کی پیداوار کافی زیادہ ہے ‘بلکہ کھجوروں کے ساتھ ساتھ یہ لوگ کن کھجوروںسے بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجلاس سے خطاب کرر ہے تھے۔
اور اب آخر میں سید عامر سہیل کی یہ تازہ غزل:
تیرے بدن پہ خاک نژادوں کے دستخط
یادوں کے دستخط ہیں یہ وعدوں کے دستخط
اور حور جو بتوں کی جوانی سے بسکٹی
اور ہجرتوں کے اور فسادوں کے دستخط
ہم نام نام تیری طرف دوڑتے ہوئے
یہ شام شام تن پہ لبادوں کے دستخط
سب یار میرے کون طرف یار رہ گئے
اس آخری غزل پہ ہیں آدھوں کے دستخط
شہزادیوں کے ساتھ ہو‘ مہ زادیوں کے ساتھ
تجھ حُسن پر نہیں ہیں پیادوں کے دستخط
مٹی کی کائنات بکھرنے پہ آ گئی
غیظ و غضب کے اور عنادوں کے دستخط
سُرخ و سفید بیل جو کاندھے سے جھڑ گئی
ہاتھوں سے جھڑ گئے ہیں ارادوں کے دستخط
چھلنے لگا ہے جسم‘ پھسلنے لگا ہے جسم
کمرا بھرا ہُوا ہے بُرادوں کے دستخط
کس درد کی دراز میں کس رین کوٹ میں
ہم نے کہاں سنبھالے تھے یادوں کے دستخط
جگنو نہیں بتاتے‘ بتاتی نہیں شبیں
کس آگ میں جلے ہیں یہ بھادوں کے دستخط
آج کا مطلع
امید بھی نہیں اور انتظار بھی نہیں تھا
اگرچہ راستا وہ خار زار بھی نہیں تھا