درزی کا خط
میری پیاری بلّو! اپنے دیوانے دلدار حسین کا سلام قبول کرو۔ یقین کرو کہ تمہارے ہجر نے میرے سارے کس بل نکال دیے ہیں اور مجھے گز کی طرح سیدھا کر دیا ہے۔ کسی کے ساتھ بات تک کرنے کو جی نہیں چاہتا اور جو زبان قینچی کی طرح چلتی تھی اس پر چُپ کے تالے لگ گئے ہیں،ظالم زمانے نے ہمیں الگ الگ کر دیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ زبان پر کسی نے سلائی کر دی ہے اور گھڑی گھڑی یادوں کی ریل چلتی رہتی ہے اور تمہارے بغیر دن ایسے کاٹ رہا ہوں جیسے سُوئی کے ناکے سے اونٹ گزار رہا ہوں اور تمہاری جدائی اس قدر لمبی چوڑی ہے کہ میںاس کا ناپ بھی نہیں لے سکتا۔ کام کا بھی کوئی ہوش نہیں رہا۔ شلوار پر کالر لگا دیتا ہوں اور قمیص کو نیفہ لگا دیتا ہوں۔ وعدے کے مطابق کسی کو کپڑے بھی تیار کر کے نہیں دے سکتا۔ جی چاہتا ہے کہ مشین بیچ دوں اور بازار میں ریڑھی لگا لوں۔ ایسا لگتا ہے کہ میری زندگی کسی کچے دھاگے سے بندھی ہو۔ بے دھیانی میں کئی بار استری سے اپنا ہاتھ بھی جلا چکا ہوں۔ صحت بھی جواب دے رہی ہے اور چُست پاجامے جیسا ہوتا جا رہا ہوں۔(فقط تمہارا دلدار حسین)
دھوبی کا خط
میرے خوابوں کی ملکہ۔ دُعا سلام کے بعد عرض ہے کہ یہاں پر درجہ بدرجہ خیریت ہے اور تمہاری خیریت نیک مطلوب ہے۔ تمہاری دُوری سے جسم اکڑا اکڑا سا رہتا ہے جیسے کسی نے کلف لگا دیا ہو اور اپنے کُتے کی طرح ہو کر رہ گیا ہوں یعنی گھر کا نہ گھاٹ کا۔ اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی چھوا چھو چھوا چھو کرتا ہوا میرے جسم کو کسی پتھر پر پٹخ رہا ہے۔ تم نے آنے کا وعدہ بڑے زور شور سے کیا تھا اور اب صابن کی جھاگ کی طرح بیٹھ گئی ہو۔ اگر میرے بارے میں دل میں کوئی میل ہو تو خدارا اُسے صاف کر لو۔ پچھلی دفعہ میرے جن کپڑوں کی تعریف کر رہی تھیں وہ کسی اور کے تھے اور میرے پاس دُھلنے کیلئے آئے تھے؛ چنانچہ ایسے پسندیدہ کپڑوں کو تین چار دن تک ہم لوگ خود پہنتے ہیں اور اس کے بعد اُنہیں بھٹی پر چڑھاتے ہیں اور چونکہ یہ زیادہ میلے نہیں ہوتے اس لیے ہم انہیں پہن کر خود میلا کرتے ہیں کہ دُھل کر انہوں نے صاف تو ہو ہی جانا ہوتا ہے۔ اگلی بار آیا تو اُس سے بھی اچھے کپڑے پہن کر آؤں گا۔ ابھی ابھی میری بیوی نے پوچھا ہے کہ کیا لکھ رہے ہو تو میں نے جواب دیا ہے کہ کپڑوں کا حساب لکھ رہا ہوں۔ تم سے دور رہ کر میرا رنگ نیلا پڑتا جا رہا ہے جیسے کسی نے نیل لگا دیا ہو۔(فقط ملاقات کا منتظر، تمہارا غلام محمد)
پٹواری کا خط
میری پیاری چھمک چھلّو! آج تمہاری یاد نے اتنا ستایا ہے کہ ساری خسرہ گرداوری ہی بھول گیا ہوں۔ بس انتظار کر رہا ہوں کہ تم کب میری فرد ملکیت پر پورا اترتی ہو۔ میری اُداسی کا یہ عالم ہے کہ جریب لے کر بھی ناپنے لگو تو پھر بھی پوری نہ ہو اور تمہارے فراق میں جیسے میرا سارا بدن خرابے میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ کچھ پتا نہیں ہماری محبت کی جمع بندی کب مکمل ہوگی۔ ایک زمانے سے اپنی محبت کی ڈھال باچھ لیے پھرتا ہوں اور کامیابی کا مُنہ دیکھنا نصیب نہیں ہوتا۔ حواس ہی قائم نہیں رہتے، لوگ انتقال کی نقل مانگتے ہیں آگے سے شجرہ نسب سُنا دیتا ہوں۔ کئی بار گرداور قانونگو سے جھاڑیں کھا چکا ہوں۔ اب تو تحصیلدار صاحب نے مجھے دورے پر ساتھ لے جانا بھی چھوڑ دیا ہے۔ بستہ تک نہیں اُٹھایا جاتا۔ فصل خریف کو فصل ربیع لکھ بیٹھتا ہوں اور فصل ربیع کو فصل خریف۔ انہی دنوں میری ترقی بھی ہونے والی تھی لیکن اس کی جگہ برخواست ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔ پریشان ہوں کہ میرا کیا بنے گا۔(فقط تمہارا دلدادہ کرم دین)
وکیل کا خط
مائی ڈیئر حُسن بانو! یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ ملاقات کے لیے تم پیشی پر پیشی دیئے چلی جاتی ہو لیکن اس طرح انصاف کے تقاضے پورے ہوتے نظر نہیں آتے اور اب میں تمہارے ساتھ بحث کرتا بھی اچھا نہیں لگتا۔ میں تو تمہاری اتنی عزت کرتا ہوں کہ کئی بار تمہیں مائی لارڈ کہنے کو جی چاہتا ہے۔ جب کبھی تمہاری یاد بہت ستاتی ہے تو اپنے آپ پر جرح کرنی شروع کر دیتا ہوں حالانکہ تم میرے عشق کی چشم دید گواہ ہو اور اب اس گواہی سے منحرف ہونے کے بہانے ڈھونڈ رہی ہو لیکن یاد رکھنا کہ آخری فیصلہ میرا ہی ہوگا جس کی کوئی اپیل یا نظرثانی بھی نہیں ہے۔ مجھے اپنے کالے کوٹ کی قسم، میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور ایسا نہ ہو کہ مجھے تم پر فردِ جرم لگانی پڑ جائے اور تم صفائی دینے کے بھی قابل نہ رہو۔ اس لیے میری اپیل ہے کہ اپنے رویے پر نظرثانی کرو۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ میرا مُنشی کم بخت کئی فیسوں کے بقایا جات لے کر بھاگ گیا ہے۔ جج صاحب کے ساتھ بھی انہی پریشانیوں کی وجہ سے تُو تُو میں میں ہو گئی اور توہینِ عدالت کی کارروائی سے بصد مشکل بچا۔ وہ کم بخت کئی ضروری لفافے بھی ساتھ لے گیا ہے اور اب مجھے دوبارہ مثل معائنہ کی فٹیگ سے گزرنا پڑے گا جبکہ تمہاری مثل کی بھی بس ایک جھلک ہی آج تک دیکھ سکا ہوں اور میری شکل بھی پی ایل ڈی جیسی ہوتی جا رہی ہے۔ تم تھوڑے لکھے کو بہت جانو اور مجھے اپنا کلائنٹ بھی سمجھو جو تمہارے حُسن کا مقدمہ مفت بھی لڑ سکتا ہے۔ منشیانے کا بھی کوئی مطالبہ نہیں۔ اپیل، نگرانی اور آخری اپیل تک لڑتا رہوں گا۔ اس خط کا جواب جلدی دینا۔(فقط، تمہارا، حاضر جواب خاں ایڈووکیٹ)
آج کا مطلع:
گھر سے نکلیں تو سہی عزمِ سفر جیسا بھی ہے
لے ہی جائے گا کہیں تو رہگزر جیسا بھی ہے