شاعر کا خط
میرے خوابوں کی ملکہ! مطلع عرض ہے کہ میں ٹھیک ٹھاک ہوں، ہر فنی نقص سے پاک ہوں اور آلودئہ خاک ہوں۔ کئی دنوں سے تمہیں مسلسل یاد کر رہا ہوں۔ اپنے آپ کو برباد کر رہا ہوں، کچھ پہلے اور کچھ بعد کر رہا ہوں۔ تم نے وعدہ کیا تھا کہ جلد ملاقات کے لئے آؤں گی اور تمہارے دل کی پیاس بجھاؤں گی اور کافی دیر کے بعد واپس جاؤں گی، ذرا مکرر ارشاد فرماؤ کہ کب قدم رنجہ فرماؤ گی۔ بعض اوقات تو مجھ پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے کیونکہ تم میری ردیف کی طرح ہو جو ہر سانس کے آخر پر آتی ہے۔ اُمید ہے کہ تمہارا وزن پورا ہوگا اور بحر بھی مناسب ہوگی اور روانی بھی ٹھیک ٹھاک۔ براہِ کرم اپنا قافیہ تنگ نہ ہونے دیا کرو اور اگر خود نہیں آ سکتیں تو مجھے فرمائش کرو، میں کچے دھاگے سے بندھا چلا آؤں گا کیونکہ مشاعروں کا موسم نہیں ہے اور میں بالکل فارغ ہوتا ہوں۔(فقط تمہارا اور صرف تمہارا جابرؔ جبل پوری)
ڈاکٹر کا خط
ڈیئر رخسانہ! تمہاری جدائی میرے لئے ہارٹ اٹیک سے کم نہیں ہے۔ مجھے اپنی سٹیتھو سکوپ کی قسم، تمہارے بغیر کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ دن میں بار بار نبض ڈوبتی ہے، یوں سمجھو کہ اپنے دل کی مرہم پٹی کرتا رہتا ہوں۔ مریض کو بخار ہو تو اسے پیٹ درد کا نسخہ لکھ دیتا ہوں اور ہاضمہ خراب مریض کو سرجری کا مشورہ دے دیتا ہوں جبکہ مریضوں کے ساتھ لڑنے جھگڑنے سے میرا اپنا ٹمپر یچر ہائی رہتا ہے۔ تمہارے خط سے مجھے ٹنکچرکی بُو آتی ہے۔ اپنا خیال رکھا کرو اور حرکتِ قلب کا بھی خاص خیال رکھنا بیحد ضروری ہے۔ تمہارا خیال آتا ہے تو جیسے مجھے طاقت کا ٹیکہ لگ جاتا ہے اور دوران خون بہت تیز ہو جاتا ہے، یوں سمجھو کہ میرا دل ایک ایسا کلینک ہے جہاں ہر وقت مریضوں کا رش رہتا ہے۔(فقط، ملاقات کا متمنی، تمہارا ڈاکٹر شفاء اللہ)
حجام کا خط
جانِ من! تم نے اپنے جانثار کو گویا بالکل ہی بُھلا رکھا ہے، پہلے کبھی کبھی ناخن ترشوانے آ جایا کرتی تھیں۔ اب وہ بھی سلسلہ موقوف ہے۔ ایسا لگتا ہے تم نے نیل کٹر خرید لیا ہے لیکن اس سے بھی ناخن پوری گولائی میں نہیں کٹ سکتے۔ تمہاری یاد آتی ہے تو گویا میرے دل پر اُسترے چل جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو مجھ سے بات تک نہیں ہوتی، اور جو زبان قینچی کی طرح چلتی ہے وہ کام کرنا ہی چھوڑ دیتی ہے۔ ہمارے ہاں خضاب لگانے کی سہولت بھی موجود ہے، اپنے والد صاحب سے کہو کہ اس سلسلے میں ہماری خدمات حاصل کریں جو ہمارے لیے ایک سعادت سے کم نہیں ہوگا جبکہ پھٹکری لگانے کا بھی تسلی بخش انتظام ہے۔ جس اوباش نوجوان کی تم نے شکایت کی تھی کہ تمہیں چھیڑتا ہے، اگر میرے ہتھے چڑھ جائے تو اس کی حجامت بنا کر رکھ دوں۔(فقط تمہارا چاہنے والا: زُلف تراش خاں)
ٹیکسی ڈرائیور کا خط
میرے دل کے ٹکڑے! تمہاری یاد اس تیزی سے آتی ہے جیسے صاف اوورسپیڈنگ کر رہی ہو حالانکہ اُسے بریک پر بھی پیر رکھنا چاہیے۔ بس یوں سمجھو کہ تمہاری محبت میں میرا چالان ہر روز ہوتا ہے بعض اوقات تو تمہاری یاد میں اس طرح مگن ہوتا ہوں کہ سُرخ بتی پر بھی نہیں رُکتا جبکہ میرے دل کی گاڑی صرف تمہارے پٹرول سے چلتی ہے اور دل میں تمہارا ہارن بجتا رہتا ہے۔ جب تمہاری یاد زیادہ ستاتی ہے تو اسے ریورس گیئر میں ڈالنے کی ہزار کوشش کرتا ہوں لیکن کامیابی نہیں ہوتی۔ کبھی کبھی تو تمہارے تصور میں سٹیرنگ ہی سے لپٹ جاتا ہوں۔ اسی پاگل پن میں کئی بار ایکسیڈنٹ سے بھی بال بال بچا ہوں۔ اگر ٹائر پنکچر ہو جائے تو سٹپنی سے کام لیتا ہوں اور اگر سٹپنی بھی پنکچر ہو جائے تو اسے بھی تمہاری یاد کا شاخسانہ سمجھتا ہوں۔ میں تو اپنا ڈرائیورنگ لائسنس بھی تمہی کو سمجھتا ہوں جس کے بغیر یہ گاڑی چل ہی نہیں سکتی۔ کبھی سواری نہیں ملتی تو تم زیادہ یاد آتی ہو۔(فقط تمہارا خادم: فریاد علی)
اور اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
دن رات میرے دل میں جو رہتی ہے ٹوٹ پھوٹ
ٹکڑے بھی جوڑ دیتی ہے، ایسی ہے ٹوٹ پھوٹ
کل کو الگ الگ بھی یہ ہو جائیں کیا عجب
یکجا ابھی ہماری تمہاری ہے ٹوٹ پھوٹ
دل کے معاملات ہیں سارے ملے جُلے
آدھی شکست و ریخت ہے، آدھی ہے ٹوٹ پھوٹ
اس کے علاوہ اور کوئی کیا کہے بھلا
اچھوں نے کی ہے اس لیے اچھی ہے ٹوٹ پھوٹ
یہ توڑ پھوڑ ایک ہی دن کی نہیں کوئی
سوچو اگر تو کافی پُرانی ہے ٹوٹ پھوٹ
انصاف سے اگر کبھی اندازہ کر سکو
آدھی تمہاری، آدھی ہماری ہے ٹوٹ پھوٹ
دیکھو تو کوئی چیز سلامت نہیں رہی
پھیلی ہوئی یہاں وہاں ساری ہے ٹوٹ پھوٹ
جیسے کوئی قیامتِ صغریٰ گزر گئی
اپنی کہانی آپ ہی کہتی ہے ٹوٹ پھوٹ
بکھرا ہوں اُس کے راہگزر پر جو میں، ظفرؔ
اس طرح میرے کام بھی آئی ہے ٹوٹ پھوٹ
آج کا مقطع:
یہ لوگ ہیں مرے اپنے ہی آر پار، ظفرؔ
سبھی کے واسطے دریا عبور میرا ہے