آئندہ چند ماہ میں بہتر نتائج نکلیں گے: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''آئندہ چند ماہ میں بہتر نتائج نکلیں گے‘‘ تاہم یہ نتائج کی اپنی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ کب نکلیں گے‘ کیونکہ یہ سب خدائی ہیں اور ہم خدائی کاموں میں دخل اندازی کا سوچ بھی نہیں سکتے‘ جبکہ سوچنے سمجھنے کا کام ہم نے ملکی مفاد کے پیش ِنظر ویسے بھی معطل کر رکھا ہے ‘کیونکہ سب کچھ ماشاء اللہ بغیر سوچے سمجھے ہی کیا جا رہا ہے ‘کیونکہ یہ مملکت ِ خداداد ہے اور خداوند تعالیٰ اسے خود ہی چلا رہے ہیں ‘جس کے بعد خود کچھ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی‘ تاہم جوں جوں بہتر نتائج نکلیں گے‘ عوام کو پہلی فرصت میں ‘اُن سے آگاہ کر دیا جائے گا‘ کیونکہ یہ اپنے آپ عوام کو شاید نظر نہ آئیں‘ کیونکہ یہ غیر محسوس طریقے سے آئیں گے ‘جبکہ انہیں محسوس کرنے کیلئے خصوصی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے‘ جس کا اہتمام بھی ساتھ ساتھ کیا جاتا رہے گا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک اہم اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
پاکستان آئی ایم ایف کے سامنے لیٹ گیا: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''پاکستان آئی ایم ایف کے سامنے لیٹ گیا‘‘ اب آپ ہی بتائیں کہ میںایسے پاکستان میں کیسے واپس آ سکتا ہوں؟ حالانکہ اس کے سامنے بیٹھنے پر بھی گزر اوقات ہو سکتی تھی‘ جبکہ بیٹھنے کے بھی کئی طریقے ہیں‘ مثلاً: پاکستان اُلٹا اس کے گوڈوں گِٹوں میں بیٹھ سکتا تھا‘ نیز اسی افسوسناک صورت حال کی وجہ سے بھائی صاحب بھی وہاں سے یہاں آنے والے ہیں‘ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم دونوں لندن میں بیٹھ کر تحریک زیادہ زور سے چلا سکتے ہیں ‘بلکہ یہاں سے چلی چلائی بھی مل سکتی ہے ‘جس پر خرچ تو کافی آتا ہے‘ لیکن حکومت کو بھگتانے کے بعد اتنے پیسے بچ رہیں گے کہ تحریک خرید سکیں ۔ آپ اگلے روز لندن میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
حکومت سے 70سال کا حساب نہیں لیا جا سکتا: فردوس اعوان
وزیراعلیٰ کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''8ماہ کی حکومت سے 70سال کا حساب نہیں لیا جا سکتا‘‘ اگرچہ 8ماہ کا حساب دینا بھی خاصا تکلیف دہ ہے اور 70سال کے حساب سے بڑھ کر ہے‘ تاہم اگر ہم سے 70سال کا حساب لینا ہے تو ہمیں 70سال تک حکومت بھی کرنے دی جائے‘ جبکہ ہماری 8ماہ کی کارکردگی سے 70سال کی کارگزاری کا اندازہ لگایا جا سکتاہے‘ نیز اُمید ہے کہ 70سال میں نیا پاکستان بھی بن جائے گا ‘جبکہ پرانا پاکستان بننے میں 70سال سے بھی زیادہ سال لگے تھے‘ غرضیکہ 70سال تو چٹکی میں گزر جائیں ‘کیونکہ وقت کی رفتار حیرت انگیز حد تک بڑھ گئی ہے‘ جسے روکنے کی ضرورت ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ٹویٹ کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کر رہی تھیں۔
معیشت اب آئی ایم ایف کے حوالے کر دی گئی: حمزہ شہباز
نواز لیگ کے مرکزی رہنما اور پنجاب اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''معیشت اب ملک کے ہاتھ میں نہیں رہی‘ آئی ایم ایف کے حوالے کر دی گئی‘‘ جبکہ ہم نے معیشت کو اپنے ہاتھوں میںرکھا تھا اور دونوں ہاتھوں سے اس سے استفادہ بھی کرتے رہے اور یہ جو رنگ بھاگ لگے نظر آ رہے ہیں‘ سب اُسی کا نتیجہ ہے ‘جبکہ والد صاحب اس محنت ِ شاقہ سے اس قدر تھک گئے تھے کہ اُنہیں آرام کیلئے لندن جانا پڑا اور یہ تھکاوٹ اس قدر زیادہ تھی کہ اسے اتارنے کیلئے کئی سال درکار ہوں گے‘ جبکہ ان کی تیمار داری کیلئے مجھے بھی وہاں جانا پڑے گا‘ کیونکہ یہ اکیلے سلمان شہباز کے بس کا روگ نہیں اور اگر تایا جان اپنا معاملہ صاف کروا لیتے ہیں ‘تو ملکی مفاد کی خاطر سارا خاندان ہی وہاں منتقل ہو جائے گا‘ کیونکہ ہم ہر کام ملکی مفاد کے تحت کیا ہے اور اس کثرت سے کیا ہے کہ خود ملکی مفاد تنگ آ گیا تھا۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
دھجی دھجی روشنی
یہ قندیل بدر کا مجموعۂ کلام ہے جسے گوہر گھر پبلی کیشنز ‘کوئٹہ نے چھاپا ہے اور جو نظموں اور غزلوں پر مشتمل ہے۔ انتساب امی کے نام ہے۔عرض ِناشر اور شاعر کے اظہارِ تشکر کے بعد دیباچے ہیں ‘ جو؛ رحمان حفیظ‘ ارشد معراج اور فرزاد علی زیرک نے تحریر کیے ہیں۔ پس سرورق تحسینی تحریریں ‘ابرار احمد اور محسن چنگیزی کی ہیں۔ اندرون سرورق نوشین قنبرانی کی تحریر ہے۔ پس سرورق شاعرہ کی تصویر بھی شائع کی گئی ہے۔ ڈیزائننگ سہیل جعفر کی ہے‘ جبکہ خوبصورت ٹائٹل تمثیل حفصہ کے موئے قلم کا نتیجہ ہے۔ ڈاکٹر ابرار احمد کے مطابق '' شاعرہ نے شعری اظہار کیلئے روایتی زبان کے استعمال سے بھی گریز کیا ہے اور اپنے لیے ایسے راستے کو چُنا ہے‘ جو آگے چل کر انفرادیت کے حصول کو اس کیلئے ممکن بنا سکتا ہے‘‘ جبکہ محسن چنگیزی کے مطابق '' قندیل بدر اپنی ذات اور اپنے عصر سے وابستہ ایک زندہ تخلیقی وجود اور باوقار شاعرہ ہیں‘ اس دھجی دھجی روشنی میں ہم اپنی ذات اور عصر کے دُھندلائے چہرے کو آسانی سے دیکھ سکتے ہیں‘‘۔میری نظر میںیہ روٹین کی شاعری ہے‘ جسے قابلِ قبول بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
آج کا مقطع
محبت سر بسر نقصان تھا میرا‘ ظفرؔ‘ اب کے
میں اس سے بچ بھی سکتا تھا‘ مگر ہونے دیا میں نے