کراچی سے آصف فرخی کی زیر ادارت کتابی سلسلے کا یہ شمارہ شائع ہو گیا ہے جو حال ہی میں انتقال کر جانے والے ادبا فہمیدہ ریاض، خالدہ حسین، الطاف فاطمہ اور اقبال مجید کے نام ہے جس کا عنوان کھڑکی میں چاند ہے۔ ''ستارہ نہ بادبان‘‘ کے عنوان سے مدیر کے پیش لفظ سے اس کا آغاز ہوتا ہے۔
سب سے پہلے' 'میں عام آدمی سے ڈرتا ہوں‘‘ کے عنوان سے مسعود اشعر کا اشعار سے بھرا مضمون ہے جس کے بعد تنقید کی زبان کے حوالے سے انیس اشفاق کا مضمون ہے۔ اس کے بعد افسانے ہیں، لکھنے والوںمیں رضیہ فصیح احمد، مسعود اشعر، حسن منظر، ذکیہ مشہدی، عشرت آفرین، شہلا نقوی، جیم عباس، فیصل ریحان، صدیق عالم اور شاداب رشید شامل ہیں۔ اس کے بعد حصۂ نظم ہے جس میں منظوم تراجم بھی شامل ہیں اور فہمیدہ ریاض، منیب الرحمن، تنویر انجم، احمد فواد، مصطفی ارباب، علی سعید اور اسامہ امیر شامل ہیں۔ اس کے بعد نثری تراجم اور مضامین ہیں جن میں گاؤ ینگ جیان پرنجم الدین احمد کا مضمون ہے‘ لیلیٰ سلیمانی کا ترجمہ سعید نقوی نے کیا ہے، دوزخ نامہ یا بہشت نامہ کے عنوان سے انعام ندیم کی تحریر ہے۔حصۂ مضامین میں تمہید :''بن باسی دیوی‘‘ کے عنوان سے محمد سلیم الرحمن کا مضمون ہے،'' زمین اور جنگی بجار‘‘ کے عنوان سے اشرف صبوحی کی تحریر ہے،' گل بھی ہے اک نوا غور سے سن‘ اور روز و شب کا سمندر کے عنوانات کے تحت شمیم حنفی کے مضامین ہیں جس کے بعد کامران کی مہا بھارت کے عنوان سے شمس الرحمن فاروقی کا مضمون ہے جبکہ نغمۂ تخلیق کے عنوان سے کامران ندیم کی (ترجمہ) تحریر ہے، کامران ندیم مہا بھارت تک کے عنوان سے فرح کامران کا مضمون، نیر مسعود کے پندرہ رجسٹرکے عنوان سے تمثال مسعود کا مضمون، جس کے بعد جعفر زٹلی ایک سنجیدہ مہمل گو کے عنوان سے آصف فرخی نے انتظار حسین کے انگریزی مضمون کا ترجمہ پیش کیا ہے، زمان و مکان سے ماورا لمحے کے عنوان سے یو آر آینتھ مورتی کا ترجمہ بھی آصف فرخی نے کیا ہے۔ پھر انتظار صاحب، آنسو اور معذرت کے عنوان سے آصف فرخی کا انتظار حسین خراجِ عقیدت و محبت ہے، بہت شفیع بہت عقیل کے عنوان شفیع عقیل پر اخلاق احمد کا مضمون ہے جبکہ عطا صدیقی کی یاد میں، اور کھڑکی میں چاند، فہمیدہ ریاض کی آخری نظم کے حوالے سے آصف فرخی کا مضمون ہے۔
حصۂ غزل میں اکبر معصوم، کاشف حسین غائر، سرفراز زاہد، سعید شارق اور عبدالرحمن مومن کی نگارشات ہیں۔ کچھ اشعار دیکھیے:
مجھ سے ملنے گیا تھا ماضی میں
حال ہو کر بہت زبوں آیا
جیسے نعمت کوئی اُترتی ہے
دُکھ ہمارے لیے تو یوں آیا
جو نظر آتا ہے سب دیوار ہے
آئنہ کیسی عجب دیوار ہے
اب مجھے بھی یہ نظر آنے لگی
ورنہ پہلے تھی نہ اب دیوار ہے
اب بھی اکثر وہ چمک جاتا ہے
کبھی جگنو میں کبھی تارے میں
کیسے ہاتھوں سے نکلتے نہیںدیکھے میں نے
دن گزارے ہیں، گزرتے نہیں دیکھے میں نے
نیند میں چبھنے لگے تب مجھے معلوم ہوا
خواب چنتے ہوئے کانٹے نہیں دیکھے میں نے
تیرے آنے سے جو یکبار چمک اُٹھتے ہیں
ایک ساتھ اتنے ستارے نہیں دیکھے میں نے
میں سمجھتا رہا جاتے ہیں بس اوپر کی طرف
نیچے جاتے ہوئے زینے نہیں دیکھے میں نے
اُس کے پتھر کے پگھلنے کی طرف دھیان رہا
اپنے ٹوٹے ہوئے شیشے نہیں دیکھے میں نے
ہے تو معصوم محبت میں ہلاکت، لیکن
لوگ اس زہر سے مرتے نہیں دیکھتے میں نے (اکبر معصوم)
وہ شخص میرا ساتھ نہ دے گا، سمجھ گیا
جب اُس نے مجھ سے ہاتھ ملایا، سمجھ گیا
تنہائی جیسی شے کو سمجھنا محال ہے
لیکن جو تیری بزم میں بیٹھا، سمجھ گیا
مسافروں کو یہ رستے بھی یاد رکھتے ہیں
ابھی فلاں نہیں گزرا، ابھی فلاں گزرا
سوار ہے وہ یہاں دوسرے کے کاندھوں پر
جو اپنے آپ کو سب سے بڑا سمجھتا ہے
یہی وہ لوگ ہیںجو انقلاب لاتے ہیں
تو خواب دیکھنے والوں کو کیا سمجھتا ہے
جناب یونہی تکلف میںپڑ رہے ہیں آپ
میں اتنا بوجھ تو خود بھی سہار سکتا ہوں
میں اس درخت کو کچھ اور دیکھ لوں غائرؔ
تھکن کا کیا ہے، کہیںبھی اُتار سکتا ہوں
بس ایک سیر و سفر ہی مرا علاج نہیں
پڑے پڑے بھی طبیعت مری سنبھلتی ہے (کاشف حسین غائر)
ہاتھ ملتی ہوئی رہ جائیں گی آنکھیں شارقؔ
وہ کہیں اور چلا جائے گا میں اور کہیں (سعید شارق)
خود کو کتنا بھلا دیا میں نے
تو بھی اب اجنبی لگتا ہے (عبدالرحمن مومنؔ)
آج کا مقطع:
ظفر، ایمان کی دہائی دی
کفر نکلا نہ اُس کے اندر سے