"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن اور ابرار احمد کی نظم

ووٹ کو عزت دو سے بڑھ کر ن لیگ کا کوئی اور نعرہ نہیں:نواز شریف
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''ووٹ کو عزت دو سے بڑھ کر ن لیگ کا کوئی اور نعرہ نہیں‘‘ اگرچہ چند ماہ پہلے تک یہ نعرہ نظروں سے اوجھل رہا ہے‘ کیونکہ سیاسی نعرے ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے اور بوقت ِ ضرورت غائب اور حاضر ہوتے رہتے ہیں؛ چنانچہ حکومت کے ساتھ افہام و تفہیم کے دنوں میں یہ نعرہ ذرا پس منظر میں چلا گیا تھا‘ لیکن اس دوران بھی اس نعرے کی صحت پر کوئی بڑا اثر نہیں پڑا‘ بلکہ کچھ عرصہ آرام کرنے کے بعد اب اس کی صحت پہلے سے بہت بہتر ہو گئی ہے‘ جیسے کہ میں ماشاء اللہ ہٹا کٹا ہوں اور اپنا سیاسی کردار پورے جوش و خروش سے جاری رکھے ہوئے ہوں اور اب میں نے مریم نواز سے بھی کہہ دیا ہے کہ میری صحت کے حوالے سے دن رات بیانات دینے کی بجائے وہ اپنی پوری توجہ دیں‘ جو اپوزیشن چلانے کا ارادہ کیے ہوئے ہے۔ آپ اگلے روز جیل میں اپنے ملاقاتیوں کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے۔
شہدا قوم کے ماتھے کا جھومر ہیں‘ قربانیاں رائیگاں نہیں جائینگی:بلاول
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے 
کہ ''شہدا قوم کے ماتھے کا جھومر ہیں‘ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی‘‘ اگرچہ میں شہید اور اس کے ساتھی کے حق میں بیان دے چکا ہوں کہ ان کیلئے حکومتی اعزاز جاری کیا جائے‘ کیونکہ کوئی شخص محنت اور تگ و دو کرنے کے باوجود بھی شہادت کا رتبہ حاصل نہیں کر سکتا؛ اگر اس کارِخیر میں معاونت کرنے اور اس کی وجہ بننے کیلئے کوئی موجود نہ ہوں‘ اس لیے میرے ان بیانات کو صحیح تناظر میں دیکھا اور سمجھا جائے جیسا کہ والد صاحب کے ایک بیان؛ اینٹ سے اینٹ بجانے کو بھی غلط سمجھا گیا ‘جس کا مطلب صرف یہ تھا کہ اس طرح جو موسیقی پیدا ہوتی ہے‘ اس سے لطف اندوز ہوا جائے ‘لیکن اسے اس قدر غلط سمجھا گیا کہ والد صاحب کو کافی عرصہ بیرون ملک قیام کرنا پڑا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
نواز شریف کو چوبیس گھنٹے علاج کی ضرورت ہے:مریم نواز
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی سزا یافتہ صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کو چوبیس گھنٹے علاج کی ضرورت ہے‘‘ کیونکہ دیگر سیاسی مصروفیات کے علاوہ انہیں بلند آواز میں یہ نعرہ بار بار لگا کر بھی دکھانا پڑتا ہے‘ جس سے وہ کانپنے لگتے ہیں اور اس کیفیت سے نکلنے کیلئے بھی انہیں فوری علاج کی ضرورت ہوتی ہے‘ جبکہ یہ نعرہ لوگوں کے علاوہ انہیں خود بھی بھول چکا تھا ‘جسے یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ حکومت کے ساتھ بات چیت کے دنوں میں یہ نعرہ کولڈ سٹوریج میں رکھ دیا گیا تھا‘ جو اب نکالا ہے ‘تو اس قدر ٹھٹھرا ہوا ہے کہ نعرہ لگتا ہی نہیں ‘بلکہ ایک ہلکی سی چوں کی شکل اختیار کر گیا تھا‘ جبکہ اسے گرمائش پہنچانے بھی خود نواز شریف ہی کے ذمے تھا اور آپ جانتے ہیں کہ ان کے ذمے جو کام بھی ہوتا ہے‘ وہ اسے پوری لگن کے ساتھ کرتے ہیںاور پے در پے خدمت اس کی ایک روشن مثال بھی ہے۔ آپ اگلے روز ٹویٹر پر ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
پنجاب کے 177 ریسٹ ہائوسز عوام کیلئے
کھول دئیے گئے ہیں:عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''پنجاب کے 177 ریسٹ ہائوسز عوام کیلئے کھول دئیے گئے ہیں‘‘ اس لیے جن عوام کے پاس اپنے گھر نہیں ہیں‘ وہ ہائوسنگ سکیم کے مکمل ہونے تک ان ریسٹ ہائوسز میں قیام کر سکتے ہیں‘ جبکہ ریسٹ کا مطلب آرام کرنا ہے‘ جیسا کہ ہم خود بھی روز اول سے آرام کر رہے ہیں اور آرام بجائے خود کام کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے ہمیں عوام کے آرام یعنی کام کا پورا پورا احساس ہے‘ جبکہ احساس پروگرام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور یہ ہتھکڑی سے ذرا مختلف چیز ہوتی ہے ‘جبکہ ہتھکڑی لگنے کے بعد آدمی جیل میں پہنچتا ہے‘ جہاں اسے رہائش اور کھانا مفت مہیا کیا جاتا ہے اور ہم جو ساری اپوزیشن کے جیل میں ہونے کی تمنا رکھتے ہیں تو اسی لیے کہ ان کی بودوباش اور خوردونوش کا مسئلہ مستقل طور پر حل ہو جائے اور انہیں ہمارے خلاف تحریک چلانے کی فرصت اور ضرورت ہی نہ رہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک ٹویٹ جاری کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں معروف شاعرابرار احمد کی نظم:
ایک آنسو نہیں تھا
جہاں میں کھڑا تھا/ ازل سے کھڑا تھا/مرے ہاتھ میں پھول تھے/ جو یہیں پر کھلے تھے کبھی/ اور پہلو میں نیزے
ہوا میں نمی تھی/ درختوں میں/ ٹھہری ہوئی سبز چپ/ دل کو لبریز/ سانسوں کو زخمی کیے جا رہی تھی/ کہیں دور تک/ ٹیڑھی میڑھی گلی تھی/ جو رکتی نہ تھی/ ہر طرف شام زردی اُنڈیلے ہوئے/ اجنبی آشنائی سے/ تکتی تھی ہم کو/ کچھ اس طور سے/ جیسے صدیوں سے کوئی گیا ہی نہ ہو
ہاں وہی موڑ تھا/ جس سے سمتوں کی سمتیں نکلتی تھیں/ گندم کی خوشبو وہی تھی/ دہکتے رخوں پر/ وہی نم کے قطرے تھے/ عمروں سا اڑتاہوا حبس/ سارے میں پھیلا ہوا تھا/ وہیں... خالی میداں سے/لڑکوںکی آواز سے/ کھڑکیاں ٹوٹتی تھیں
وہیں پر کہیں/ اپنی بانہوں کو کھولے ہوئے/ موٹے شیشوں کے پیچھے سے/ حیران ہوتی ہوئی روشنی/ ہم کو پہچاننے کی اذیت میں تھی
شور کرتا ہوا خالی پن تھا/ وہی دھند تھی/ بام ودر میں وہی/ اور اڑتے ہوئے/ وقت کے بال و پر بھی وہی/ عقب میں کہیں/ لوٹ جانے کا رستا وہی تھا/ وہی ہو بہو تھا/ وہی چار سوتھا/ مری آنکھ میں/ ...ایک آنسو نہیں تھا
آج کا مطلع
جو غم ملا جبیں کے شکن میں چھپا لیا
دل سی گداز چیز کو پتھر بنا لیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں