بجٹ سے قیامت ٹوٹی‘ کوئی طبقہ سکون میں نہیں : مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم کی سزا یافتہ صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''بجٹ سے عوام پر قیامت ٹوٹی ‘ کوئی طبقہ سکون کی زندگی نہیں گزار رہا‘‘ حتیٰ کہ ہم بھی سکون کی زندگی نہیں گزار رہے؛ اگرچہ ہمارے لیے سکون رہنے کی وجوہات کچھ اور ہیں اور‘ جس سے ساری دنیا واقف بھی ہے اور بیشک جیل میں ہر قسم کی سہولت حاصل رہتی ہے اور گھر سے بھی زیادہ آرام و آسائش میسر آتا ہے‘ لیکن جیل پھر جیل ہوتی ہے اور اس پر طرہ یہ کہ نا اہل ہو کر آئندہ وزیراعظم بننے کا خواب بھی چکنا چور ہو جاتا ہے۔ اُدھر ہمارے اپنے لوگ ہماری راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں ‘جیسا کہ مبینہ طور پر چوہدری احسن اقبال میرے جلسے میں شرکت سے لوگوں کو روکتے رہے اور شاید‘ اسی لیے ظفر وال تک کسی جگہ بھی کوئی استقبالی نظر نہیں آیا اور ایسی باتوں سے سکون ؛اگر غارت نہیں ہوگا ‘تو کیا ہوگا۔ آپ اگلے روز ظفر وال میں ایک جلسے سے خطاب کر رہی تھیں۔
وزیراعظم کا خطاب قوم کے دل کی آواز ہے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم کا خطاب قوم کے دل کی آواز ہے‘‘ جبکہ آدھی رات کے وقت قوم تو سو رہی ہوتی ہے‘ لیکن اس کا دل جاگ رہا ہوتا ہے؛ اگرچہ وزیراعظم کی تقریر تھوڑی بہت سنسر بھی کی گئی تھی‘ جو کہ جمہوریت کا حسن ہے اور آزادیٔ اظہار کے اس زمانے میں اس سے فائدہ بھی اٹھایا جاتا ہے‘ جبکہ قوم کے دل کو دھڑکن بھی وقفے وقفے سے تھوڑی دیر کیلئے بند رہتی ہے‘ جیسے کبھی کبھار وزیراعظم کو اپنا وزیراعظم ہونا ہی بھول جاتا ہے اور انہیں باقاعدہ یاد دلانا پڑتا ہے کہ آپ واقعی وزیراعظم ہیں‘ کیونکہ جس طرح وہ وزیراعظم بنے ہیں‘ وہ روزِ اوّل سے حیران ہی اس قدر رہتے ہیں کہ یہ کیا ہو گیا ہے‘ تاہم بار بار یاد دلانے کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ اب انہیں بروقت اپنا وزیراعظم ہونا اچھی طرح سے یاد رہتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں وائس چیئر مین سوشل پروٹیکشن اتھارٹی علی اسجد ملہی سے ملاقات کر رہے تھے۔
حوصلے سے حکومتی ہتھکنڈوں کا مقابلہ کر رہے ہیں: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''پارٹی ارکان اسمبلی‘ حوصلے سے حکومتی ہتھکنڈوں کا مقابلہ کر رہے ہیں‘‘ جبکہ میں دو ماہ تک لندن میں بیٹھ کر خود بھی یہی کام کر رہا تھا‘ جبکہ برادرم اسحاق ڈار‘ عزیزی داماد جی اور میرے دوسرے برخوردار بھی پورے زور و شور سے اس کام میں مصروف تھے ‘کیونکہ یہ فریضہ ملک کی بجائے ملک سے باہر رہ کر زیادہ خوش اسلوبی سے سر انجام دیا جا سکتا ہے اور وہ سب بھی وطن آنے کیلئے بے تاب تھے‘ لیکن میں نے انہیں روک دیا‘ کیونکہ لندن کے محاذ کو خالی نہیں چھوڑا جا سکتا‘ جبکہ یہاں آنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ حمزہ شہباز کے خلاف ہونے والی سازشوں کا قلع قمع کر سکوں‘ جس میں ایک عزیز بہت سرگرم ہیں؛ حالانکہ انہیں اپنی فکر کرنی چاہیے‘ کیونکہ جو نیا کمیشن بننے جا رہا ہے‘ اس میں ان کے کارہائے خفیہ و نمایاں بھی کھل کر سامنے آنے والے ہیں۔ آپ اگلے روز نواز لیگ کی پارلیمانی پارٹی سے ٹیلیفونک خطاب کر رہے تھے۔
کسی سے نہیں ڈرتا‘ کسی میں جرأت نہیں کہ مجھے بلائے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''کسی ادارے سے نہیں ڈرتا‘ کسی میں جرأت نہیں کہ مجھے بلائے‘‘ لیکن ؛اگرچہ زرداری صاحب نے بھی یہی کہا تھا کہ کسی کی کیا مجال کہ مجھے گرفتار کرے۔ بالآخر انہیں اندر ہونا پڑا‘ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت کس قدر ہتھ چھٹ واقع ہوئی ہے‘ نیز جہاں تک کسی بھی ادارے سے نہ خوف والی بات ہے تو اس میں ایک ادارہ شامل نہیں‘ جس کے ڈر سے اوسان بھی خطا ہو سکتا ہے‘ تاہم سب ادارے اس بیان کو سیاسی بیان ہی سمجھے‘ کیونکہ کسی کے ساتھ تعلقات خراب کرنا میرا شیوہ نہیں‘ جبکہ ان کو چاہیے کہ پلی بارگین کے ذریعے ‘جو اتنی دولت اکٹھی کر لی ہے۔اس میں سے ضرورت مندوں کا بھی کچھ خیال رکھے‘ خاص طور پر وہ جو سوال نہ کر سکتے ہوں‘ جبکہ میں خود بھی ماشاء اللہ سوال نہ کرنے والوں میں شامل ہوں۔ آپ اگلے روز کراچی میں عید ملن پارٹی سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ضمیرؔ طالب کی تازہ شاعری:
ضرور ملنا ہے مجھ سے تو پھر یہیں آ جا
کہیں نہیں ہوں میں‘ تُو بھی کہیں نہیں آ جا
ویسے تو آپ کو میں بھُول چکا ہوں کب سے
رابطہ اور کسی کام سے رکھا ہُوا ہے
میں جیسے جی رہا تھا کوئی جی نہیں رہا
میں جیسے مر رہا ہوں کوئی مر نہیں رہا
گرا چکا ہوں میں اپنی دنیا
اب اُس کی دنیا میں رہ رہا ہوں
ابھی تو شور نے ڈھانپا ہوا ہے چہرہ مرا
کبھی خاموش ہوئے لوگ تو پھر دیکھنا تُم
اُس مسافر کا تو نشاں تک نہیں ہے
جس کی خاطر یہ راستہ بنایا تھا
میں نے تو اور غرض سے تھا بلایا اس کو
وہ مگر اور کسی کام سے آیا ہوا ہے
ایک شب کی تو بات تھی ساری
اتنی تو کائنات تھی ساری
اپنے بچّوں کی اُنگلیاں تھامے
سیکھتا پھر رہا ہوں چلنا میں
جو گزرا ہے صاحب وہ بچپن نہیں تھا
جب اب کٹ رہی ہے جوانی نہیں ہے
میں ایسا بچّہ تھا جس کو
کھلونے توڑ دیتے تھے
آج کا مقطع
کیا زبر دست آدمی ہو‘ ظفرؔ
عیب کو بھی ہنر بنا دیا ہے