نواز اورزرداری لُوٹا پیسہ دیں اور باہر چلے جائیں: وزیراعظم
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''نواز اورزرداری لُوٹا پیسہ دیں اور باہر چلے جائیں‘‘ اور یہ شرط لازمی ہے ‘کیونکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ پیسہ واپس کر کے یہیں پر دندناتے پھریں اور ہمارے لیے نت نئے مسائل پیدا کرتے رہیں‘ جبکہ پہلے تو میرا خیال تھا کہ بیشک پیسہ واپس کیے بغیر ہی باہر چلے جائیں‘ لیکن میں جو پیسوں کی واپسی کے اتنے زور دار بیانات دیتا رہا ہوں تو لوگ کیا کہیں گے؟ اگرچہ پہلے بھی بہت سے معاملات ‘جن کا میں بار بار اعلان کرتا رہا ہوں‘ پورے نہ ہونے پر لوگ باتیں بنا رہے ہیں کہ دراصل یہ بیکار لوگ ہیں اور ہر وقت طرح طرح کی باتیں بناتے رہتے ہیں‘ اور یہ نہیں دیکھتے کہ میرے پاس کوئی جادو کی چھڑی یا الہٰ دین کا چراغ نہیں ہے ‘جو میں ہر مسئلہ چٹکیوں میں حل کر دوں‘ اس کی بجائے انہیں کوئی نہ کوئی کام کرنا چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
بدترین سیاسی انتقام‘ عمران کی دشمنی کھُل کر سامنے آ گئی: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''بدترین سیاسی انتقام‘ عمران کی دشمنی کھُل کر سامنے آ گئی‘‘ جبکہ رانا ثناء کو منشیات فروشی کی کیا ضرورت تھی کہ ہمارے جملہ معززین کے پاس تو پیسے کی اس قدر فراوانی پہلے ہی موجود ہے کہ سنبھالے نہیں سنبھلتی ہے اور یہ پندرہ بیس کروڑ کا نقصان بھی اُن کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا‘ لیکن اس پر بھی دو لفظ بھیجئے‘ حکومت کا ایک تازہ ظلم یہ ہے کہ نواز شریف کا گھر سے کھانا آنا بند کر دیا ہے‘ جس سے وہ فاقہ کشی پر مجبور ہوں گے‘ کیونکہ سری پائے‘ روغنی روش ‘ کنہ اور ہریسہ کے علاوہ اُن کا معدہ کوئی اور کھانا قبول ہی نہیں کرتا؛ چنانچہ اب‘ ہمیں ان کی طرف سے صحیح تشویش لاحق ہونا شروع ہوئی ہے ‘کیونکہ ہارٹ اٹیک وغیرہ تو ایک سیاسی بیان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک ویڈیو پیغام جاری کر رہے تھے۔
رانا ثناء اللہ کو جعلی کیس میں پکڑا گیا: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''رانا ثناء اللہ کو جعلی کیس میں پکڑا گیا‘‘ جس سے حکومت کی بدحواسی ثابت ہوتی ہے ‘کیونکہ اصلی کیسوں کو چھوڑ کر‘ جن میں 25 افراد کا قتل‘ ماڈل ٹائون سانحہ میں موصوف کی کارگزاری اور شہباز شریف کے کہنے پر جعلی پولیس مقابلوں میں بندے مروانے شامل ہیں۔ اس مقدمہ میں خواہ مخواہ گرفتار کیا گیا ہے؛ حالانکہ یہ پندرہ کلو منشیات انہوں نے خود چھاپہ مار کر پکڑی تھی اور جسے مال خانے میں جمع کروانے کیلئے لے جا رہے تھے کہ دھر لیے گئے‘ یعنی 'نیکی برباد‘ گناہ لازم‘ اور جس کا مطلب ہے کہ کل کو میرا بھی بسیار خوری میں چالان کیا جا سکتا ہے؛ حالانکہ جب سے الیکشن ہارا ہوں ‘بسیار خوری ایک خواب ہو کر رہ گئی ہے۔ ماسوائے اس کے کہ کسی دعوتِ شیراز وغیرہ میں شریک ہونے کا موقعہ مل جائے‘ مثلاً بلاول کی افطار پارٹی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
حکومت پر شریف فیملی کا خوف طاری ہے: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اور نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''حکومت پر شریف فیملی کا خوف طاری ہے‘‘ کیونکہ سارا ٹبّر ہی اندر ہونے والا ہے اور حکومت کا خیال ہے کہ یہ جیل میں قیدیوں کی بغاوت کروا دیں گے‘ نیز جو لیگی ارکان اسمبلی منحرف ہو رہے ہیں ‘وہ بھی حکومت کے لیے خطرہ ثابت ہوں گے‘ کیونکہ جو ہمارے نہیں رہے‘ وہ حکومت کے کب ہو سکتے ہیں؟ علاوہ ازیں نواز لیگ میں جو دو دھڑے بن گئے ہیں‘ حکومت ان سے بھی خوفزدہ ہے‘ کیونکہ اب‘ اُسے دو طرف سے خطرہ ہوگا۔ اس لیے حکومت نے ابھی سے تھر تھر کانپنا شروع کر دیا ہے اور اگر‘ شریف فیملی نے پلی بارگین کر لی تو ملک سے باہر جا کر حکومت کے خلاف محاذ کھول لیں گے اور حکومت کی خارجہ پالیسی کو جس سے فوری خطرہ لاحق ہو جائے گا اور حکومت کی خوفزدگی کی انتہا یہ ہے کہ رانا ثناء اللہ کو منشیات کیس میں گرفتار کر لیا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
اور ‘ اب ابرار احمد کے اوّلین مجموعے ''آخری دن سے پہلے‘‘ میں سے ایک نظم پیش ِ خدمت ہے:
قصباتی لڑکوں کا گیت
ہم تیری صبحوں کی اوس میں بھیگی / آنکھوں کے ساتھ / دنوں کی اُس بستی کو دیکھتے ہیں / ہم تیرے خوش الحان پرندے / ہر جانب تیری منڈیریں کھوجتے ہیں / ہم نکلتے تھے / تیرے ماتھے کے لیے بوسہ ڈھونڈنے / ہم آئیں گے / بوجھل قدموں کے ساتھ / تیرے تاریک حجروں میں پھرنے کے لیے / تیرے سینے پر / اپنی اکتاہٹوں کے پھول بچھانے / سر پھری ہوا کے ساتھ / تیرے خالی چوباروں میں پھرنے کے لیے / تیرے صحنوں سے اٹھتے دھوئیں کو / اپنی آنکھوں میں بھرنے / تیرے اُجلے بچوں کی میلی آستینوں سے / اپنے آنسو پونچھنے / تیری کائی زدہ دیواروں سے / لپٹ جانے کے لیے / ہم آئیں گے / نیند اور بچپن کی خوشبو میں سوئی ہوئی / تیری راتوں کی چھت پر / اُجلی چارپائیاں بچھانے / موتیے کے پھولوں سے پرے / اپنی چیختی تنہائیاں اٹھانے / ہم لوٹیں گے تیری جانب / اور دیکھیں گے ‘تیری بُوڑھی اینٹوں کو / عمروں کے رتجگوں سے دُکھتی آنکھوں کے ساتھ / اونچے نیچے مکانوں میں گھرے / گزشتہ کے گڑھے میں / ایک بار پھر گرنے کے لیے / لمبی تان کر سونے کے لیے / ہم آئیں گے‘ تیرے مضافات میں مٹی ہونے کے لیے!
آج کا مقطع
وہ ہمارا نقشِ نیاز تھا کہ نہیں‘ ظفرؔ
یہ کسی کا عکسِ عتاب ہے کہ سیراب ہے