"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘متن اور ’’آمریت‘ جمہوریت اور بے بس عوام‘‘

ظالم نئے پاکستان سے جان چھڑانی ہے: بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''ظالم نئے پاکستان سے جان چھڑانی ہے‘‘ بشرطیکہ پہلے وہ مجھ سے جان نہ چھڑوا لے‘ کیونکہ ماہرین تو یہی کہہ رہے ہیں کہ میری ساری عمر مقدمات لڑنے اور جیل ہی میں گزر جائے گی اور اسی لیے میں نے شادی کا بھی ارادہ کر لیا ہے‘ تا کہ جیل میں ممکنہ مشکلات کے خلاف اہلیہ بھوک ہڑتال وغیرہ کرتی رہے‘ کیونکہ شادی کے بعد آخر اس نے بھی تو کچھ نہ کچھ کرنا ہی ہے‘ بلکہ یہ کام والد صاحب کے لیے بھی کرنا پڑے گا‘ کیونکہ آنٹی ایان علی خود جیل میں ہوں گی‘ جس سے جیل کا ماحول خاصا گھریلو قسم کا ہو جائے گا‘ نیز والد صاحب کو جیل کا طویل تجربہ ہے‘ اس لیے یہ بھی ہمارے کام آئے گا‘ جبکہ تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں ہے اور یہ ہمیشہ وقت پر کام آتا ہے ۔ آپ اگلے روز لوئر دیر میں جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
جو جیل سے ڈر جائے ‘وہ سیاستدان ہی نہیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور کافی عرصے سے فارغ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''جو جیل سے ڈر جائے‘ وہ سیاستدان ہی نہیں‘‘ جبکہ ڈرنا صرف بیروزگاری سے چاہیے‘ جو آدمی کو کسی کام کا نہیں رہنے دیتی اور کاسہ بدست کر کے رکھ دیتی ہے‘ لہٰذا اس سے اللہ میاں کی پناہ مانگنی چاہیے‘ کیونکہ خالی پیٹ کا طبلہ تو بجایا جا سکتا ہے یا اس میں جو چوہے دوڑ رہے ہوتے ہیں‘ ان کے تدارک کے لیے کوئی بلّی تلاش کرنی پڑتی ہے ‘کیونکہ اکثر بلیاں نو سو چوہے کھا کر کے حج پر گئی ہوتی ہیں‘ نیز جیل سے اس لیے بھی نہیں ڈرنا چاہیے‘ بلکہ اس کی تمنا کرنی چاہیے‘ کیونکہ اس میں دو وقت کھانا باقاعدگی سے ملتا ہے اور دن رات موج لگی رہتی ہے ‘ جبکہ کھانے پر کوئی پابندی بھی نہیں ہوتی‘ جبکہ ویسے بھی کھانے کو زندگی کا آخری کھانا سمجھ کر ہی کھانا چاہیے اور پوری کسر نکالنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ آپ اگلے روز لاڑکانہ میں ایک ظہرانے میں شریک تھے۔
نواز شریف کے گھر سے کھانے پر پابندی‘ 
بھوک ہڑتال کر سکتی ہوں: مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی سزا یافتہ صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کے گھر سے کھانے پر پابندی‘ بھوک ہڑتال کر سکتی ہوں‘‘ جبکہ اس معاملے پر دراصل تو خود نواز شریف کو بھوک ہڑتال کرنی چاہیے اور انہیں اس کے لیے کہا بھی گیا تھا‘ لیکن ان کا جواب تھا کہ کیا آپ لوگ مجھے جان سے مارنا چاہتے ہیں؟ جبکہ یہ نام نہاد بیماری تو میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی‘ کیونکہ انسان کھانے کے لیے ہی تو پیدا ہوا ہے‘ وہ مال کھانا ہو یا روٹی‘ ہیں جی؟ اس لیے قہرِ درویش بر جانِ درویش کے مصداق ‘یہ کام مجھے ہی کرنا پڑے گا‘ جبکہ کھانا ہماری روایات میں شامل ہے‘ تاہم اس دوران جُوس وغیرہ پیا جا سکتا ہے ‘کیونکہ خود کشی کرنا تو ویسے بھی حرام ہے؛ اگرچہ بہت سی حرام چیزوں کو ہم نے اپنے لیے حلال کر رکھا ہے‘ کیونکہ ‘اگر ایسا نہ کرتے تو بالکل ہی مفلوک الحال ہو کر رہ جاتے‘ اور ہم میں اور عوام میں کوئی فرق ہی نہ رہ جاتا۔ آپ اگلے روز حسب ِ معمول و عادت ٹویٹر پر ایک پیغام جاری کر رہی تھیں۔
قوم کی لوٹی دولت واپس لانا ہر پاکستانی کی خواہش ہے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''ملک و قوم کی لوٹی دولت واپس لانا ہر پاکستانی کی خواہش ہے‘‘ اور ہم سب ہر روز جو اس پر بیان دیتے رہتے ہیں‘ یہ واپس آ کر ہی رہے گی‘ کیونکہ اللہ میاں کسی کی محبت ضائع نہیں کرتے ‘جبکہ ہر روز بیان بھی محنت کے بغیر نہیں دیئے جا سکتے ‘اس لیے یقین ہے کہ ہماری یہ محنت ِشاقہ ضرور رنگ لائے گی؛ اگرچہ‘ جن سے یہ دولت واپس لائی جانی ہے‘ وہ کاندھے پر ہاتھ نہیں رکھنے دیتے‘ اس لیے اس کے لیے جادو ٹونے سے کام لیا جا رہا ہے‘ کیونکہ جادو برحق ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا‘ جبکہ ٹونے کے اپنے فضائل ہیں اور ہماری حکومت بھی ایسے اعمال کی برکت سے ہی چل رہی ہے اور مخالفین ہکّا بکّا ہو رہے ہیں‘ جن کا مزاج ہم تعویز وں سے مزید درست کر رہے ہیں ‘ہم جّن بھی نکال سکتے ہیں‘ جس کیلئے ضرورت مند افراد کوچاہیے کہ ہم سے رجوع کریں‘ جبکہ ہم میں سے زیادہ تر عاملین ہی ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
''آمریت‘ جمہوریت اور بے بس عوام‘‘
اسے ڈاکٹر اے آر خالد نے لکھا ہے اور قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل نے چھاپا ہے۔ انتساب اس طرح سے ہے '' بانیان ِپاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ اور علامہ اقبالؒ کے نام‘ جن کا آہنی ہاتھ ان تمام حکمرانوں‘ سیاستدانوں اور صحافیوں کی گردنوں پر ہو گا‘ جنہوں نے ان کے نظریہ سے بے وفائی کی‘ جنہوں نے وطنِ عزیز میں اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرنے اور کروانے میں اپنے فرض سے غفلت برتی‘‘۔اس کتاب کی اشاعت کا اہتمام علامہ عبدالستار عاصم اور محمد فاروق چوہان نے کیا ہے۔ پس سرورق مصنف کی تصویر اور کتاب اور مصنف کا تعارف درج ہے۔
جیسا کہ کتاب کے عنوان سے ظاہر ہے کہ اس کا مزاج سیاسی‘ تاریخی اور سماجی ہے اور جس میں قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے خیالات و نظریات کی روشنی میں ہماری موجودہ صورتِ حال پر روشنی ڈالی گئی ہے اور موجودہ عوامی مسائل پر بحث کی گئی ہے اور نتائج اخذ کی گئے ہیں۔ واضح رہے کہ مصنف کا شمار ملک کے نامور اور سینئر دانشوروں میں ہوتا ہے اور ان کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اس کتاب کو خوبصورت ٹائٹل اور عمدہ گٹ اپ میں شائع کیا گیا ہے۔ مندرجہ بالا موضوع سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کرام اس کتاب سے بھرپور استفادہ کر سکیں گے۔
آج کا مطلع
جو تھے امیر اب ان کو فقیر تو دیکھو
رہا کیے ہوئے اپنے اسیر تو دیکھو

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں