ملک بھر میں احتجاجی ریلیاں نکالوں گی: مریم نواز
مستقل ناہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی سزا یافتہ صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''ملک بھر میں احتجاجی ریلیاں نکالوں گی‘‘ اور ویڈیو والے معاملہ سے فارغ ہوتے ہی یہ کام شروع کر دوں گی اور باقی ویڈیوز ان ریلیوں کے دوران دکھاؤں گی‘ تاکہ لوگوں کی دلچسپی برقرارر ہے اور اگر ویڈیو معاملے میں میرے ساتھ کوئی نیکی بدی ہو گئی تو پھر عوام کو چاہیے کہ میری رہائی کیلئے ریلیاں نکالیں‘ جبکہ میں خود جیل میں ریلیاں نکالوں گی‘ کیونکہ سارے کے سارے قیدی والد صاحب کی ضیافت سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں‘ کیونکہ سارے ملاقاتی صرف کھانا لے کر آتے ہیں‘ نیز والد صاحب روزانہ جیل میں چاروں طرف لمبی دوڑ بھی لگاتے ہیں‘ جس دوران سارے قیدی 'شیر آیا‘ شیر آیا‘ دیکھنا‘ کے نعرے بھی لگاتے ہیں۔ آپ اگلے روزحسب ِ عادت ٹویٹر پراپنا پیغام نشرکر رہی تھیں۔
سیاسی انتقام کیلئے اے این ایف کی ساکھ خراب کر دی گئی: رانا ثناء
منشیات برآمدگی کے الزام میں گرفتار نواز لیگ کے مرکزی رہنما رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''سیاسی انتقام کے لیے اے این ایف جیسے ساکھ کے حامل ادارے کے منہ پر بھی کالک مل دی گئی‘‘ اور شکر ہے کہ میرا منہ بچ گیا‘ کیونکہ خوش قسمتی سے بعدمیں کالک ختم ہو گئی تھی‘ اس لیے گرفتاری کے وقت پولیس کے پاس کالک کا وافرذخیرہ ہونا چاہیے‘ تاکہ دوسروں کی حق تلفی نہ ہو‘ کیونکہ ہم نے اپنے دور میں اس کی جو روایت قائم کر دی تھی‘ اسے اُسی طرح جاری رہنا چاہیے ‘جبکہ سیاسی انتقام کا یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جا رہا ہے‘ کیونکہ میرے محبوب پولیس افسروں کو بھی گرفتار کیا جا رہا ہے‘ ایک ڈی ایس پی گرفتار اور ایس پی کی تلاش جاری ہے‘ ابھی تو شکر ہے کہ پولیس کی عابد شیر علی کے الزامات پر نظر نہیں پڑی‘ ورنہ سیاسی انتقام کا یہ سلسلہ مزید دراز بھی ہو سکتا تھا‘ جبکہ پولیس کو اپنی بینائی پر بھی تھوڑی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آپ اگلے روز عدالت میں پیشی کے موقعہ پر صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
پاکستان کٹھن حالات سے گزر رہا ہے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکومت کے ہاتھوں پاکستان کٹھن حالات سے گزر رہا ہے‘‘ جبکہ میں اس سے بھی زیادہ کٹھن حالات سے گزر رہا ہوں‘ لیکن کسی کو اس کی فکر ہی نہیں‘ پاکستان کی تو خیر ہے ‘کیونکہ یہ تو پہلے دن سے ہی کٹھن حالات سے گزرنے کی وجہ سے اس کا عادی بھی ہو چکا ہے‘ کم از کم میرا تو کچھ دال دلیا کیا جا سکتا تھا۔ حکومت بہت زیادہ کفایت شعاری سے کام لے رہی ہے اور مستحق لوگوں کو سرا سر نظر انداز کیا جا رہا ہے‘ جو کہ غلط ہے؛ حالانکہ مین کئی بار احتجاجی تحریک اور ملین مارچ کی دھمکیاں بھی دے چکا ہوں ‘لیکن حکومت کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں یوم سیاہ کی حکمت عملی پر مشاورت کر رہے تھے۔
ہم آج تک لوگوں کو انصاف نہیں دے سکے: جاوید ہاشمی
سینئر اور تقریباً از کار رفتہ سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ''ہم آج تک لوگوں کو انصاف نہیں دے سکے‘‘ جس طرح یہ ویڈیو والا معاملہ بھی خواہ مخواہ لٹکایا جا رہا ہے؛ حالانکہ قانون کا تقاضا فوری طور پر پورا ہونا چاہیے‘ لیکن مریم نواز اسی طرح آزاد پھر رہی ہیں اور پریس کانفرنس میں شامل افراد کو ابھی تک نوٹس بھی جاری نہیں کئے گئے۔ اور‘ اگر سب کو فوری طور پر اندر کر دیا جاتا تو بکھرتی ہوئی ن لیگ مزید بکھر جاتی‘ کیونکہ ہمارے عوام جیل جانے والوں سے فوری ہمدردی کا اظہار کر دیتے ہیں اور اُنہیں ہیرو تک بنا دیتے ہیں ‘جبکہ ابھی تک نواز شریف اور اب رانا ثناء اللہ ہی ہیرو بن سکے ہیں؛ حالانکہ اس سعادت کے لیے ایک پوری کی پوری کھیپ پڑی ہے ‘جسے خواہ مخواہ نظر انداز کر کے اس سنہری موقعے سے محروم کیا جا رہا ہے ۔کم از کم مجھے ہی اس بیان پر اندر کر دیا جائے تاکہ کہ ہیرو بننا سب کی طرح میرا بھی حق ہے۔ آپ اگلے روز سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں رفعت ناہید کی یہ تازہ غزل:
کب حاضر ہونے سے بہتر غائب ہے
غائب ہے وہ اور سراسر غائب ہے
جاتے جاتے موڑ پہ مُڑ کے دیکھا تھا
اس سے آگے سارا منظر غائب ہے
ریت کے ٹیلے اور کنارے باقی ہیں
نیلا پانی‘ ہرا سمندر‘ غائب ہے
اُس کے نہ آنے کی کیا کیا تفصیل کہوں
یعنی کم لفظوں میں اکثر غائب ہے
بارہ دریاں اور کنیزیں ہیں باہر
شہزادی ہی محل کے اندر غائب ہے
سونے جیسے نقش نگاریں کھو گئے ہیں
کاغذ خط لکھتے تھے جس پر غائب ہے
اُس کا آنا جانا دیکھ کے حیراں ہوں
آیا تو تھا‘ بارِ دیگر غائب ہے
پہلے کبھی کبھار ہی غائب ہوتا تھا
اب تو کئی دن سے متواتر غائب ہے
اس کی کوئی سمجھ ہی نہیں آتی مجھے
رات جو تھا موجود وہ دن بھر غائب ہے
ڈھونڈا ہے سب اردگرد‘ مل نہیں رہا
اب کے جا کر نہیں وہ آ کر غائب ہے
گھوم رہا ہو گا باغوں‘ بازاروں میں
دے کر اب کے کوئی چکر غائب ہے
ڈھونڈ نکالنا ہے وہ جہاں بھی ہے رفعتؔ
اندر غائب ہے یا باہر غائب ہے
آج کا مقطع
بساطِ شوق ہی اس نے لپٹ دی ہے‘ ظفرؔ
اداس ہو جسے لپٹا کے پیار کرنے کو