"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن اور ابرارؔ احمد کی نظم

ڈیل یا این آر او نہیں‘ انصاف چاہیے‘ جو 
نئے پاکستان میں مشکل ہے:مریم نواز
مستقل نااہل اور سزا یافتہ وزیراعظم میاں نواز شریف کی سزا یافتہ صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''ڈیل یا این آر او نہیں‘ انصاف چاہیے‘ جو نئے پاکستان میں مشکل ہے‘‘ جبکہ ڈیل یا این آر او تو اس لیے نہیں چاہیے کہ جتنے پیسے وہ واپس مانگتے ہیں‘ اتنے ہم دے ہی نہیں سکتے اور اگر لینا ہی ہیں تو ہمارا وظیفہ مقرر کر دیا جائے‘ کیونکہ خدمت کا مستقبل تو ہمیشہ کیلئے تو تاریک ہو گیا ہے ۔دریں اثناء میں نے کارکنوں سے کہا ہے کہ نواز شریف کی تصویر والی قمیص پہنیں‘ لیکن انہوں نے کہا کہ ہماری جو حالت بہت پتلی ہے ؛البتہ ‘اگر آپ یہ قمیصیں ہمیں سپلائی کر دیں تو طوعاً و کرہاً پہن لیں گے۔ آپ اگلے روز فیصل آباد میں ایک ریلی سے خطاب کر رہی تھیں۔
25جولائی کو پشاور میں تاریخ ساز ملین مارچ کریں گے:فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''25جولائی کو پشاور میں تاریخ ساز ملین مارچ کریں گے‘‘ اور اگر حکومت نے مجھے گرفتار کر لیا تو یہ تاریخ ساز کی بجائے جغرافیہ ساز ہو جائے گا اور یہ بھی اچھا ہے‘ کیونکہ تاریخ سازی تو پہلے ہی بہت ہوئی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔ جغرافیہ سازی کم کم ہی ہوتی ہے اور اس کا ایک خوشگوار پہلو یہ بھی ہوگا کہ اس صورت میں کھانے پینے کا انتظام بھی حکومت ہی کے ذمے ہوگا اور اسے لگ پتا جائے گا کہ کسی شریف آدمی کو اندر کرنا‘ کس قدر مہنگا پڑ سکتا ہے اور ساتھ جو سینکڑوں طلبا گرفتار کریں گے‘ ان کے راشن کا بھی ذمہ اٹھانا ہوگا ‘جو کہ کافی عبرت ناک ثابت ہو سکتا ہے اور یہ سب شاخسانہ اس کوتاہی کا ہوگا‘ جو میرا مسئلہ حل نہ کرنے سے پیدا ہوا ہے اور حکومت سراسر گھاٹے میں رہے گی ‘جبکہ وہ پہلے ہی گھاٹے پر چل رہی ہے اور ایسی حکومت پر رحم ہی کھایا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور روانگی سے قبل اسلام آباد میں پارٹی عہدیداروں سے خطاب کر رہے تھے۔
اپوزیشن کو دیوار سے لگا کر حکومت ملک کا مقدمہ کیسے لڑیگی:شیری رحمن
پاکستان پیپلز پارٹی کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمن نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن کو دیوار سے لگا کر حکومت ملک کا مقدمہ کیسے لڑے گی‘‘ جبکہ یہ دیوار پہلے ہی اتنی خستہ ہے کہ اس سے لگائیں گے تو دیوار اپوزیشن کے اوپر ہی گر پڑے گی اور اگر اپوزیشن کو اس دیوار سے لگانا ہی ہے تو پہلے اس کی مرمت کروائے اور یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس دیوار کا نوشتہ بھی اچھی طرح سے پڑھا جا چکا ہے۔ جس کے مطابق ‘صدر زرداری‘ بلاول بھٹو زرداری‘ فریال تالپور اور وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے خلاف حکومت کوئی اچھا سلوک نہیں کرنے والی؛ حالانکہ آدمی اپنے حسن سلوک ہی سے پہچانا جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو حسن سلوک کی کوئی فکر نہیں اور اتنے پیچیدہ جعلی اکائونٹس پر سر کھجانے کی بجائے افہام و تفہیم کا راستہ اپنائے‘ لیکن یہ بات اس کی الٹی عقل میں نہیں آ رہی۔ آپ اگلے روز ایک امریکی ادارے کو انٹرویو دے رہی تھیں۔
کارکنوں کو اوچھے ہتھکنڈوں سے خوفزدہ نہیں کیا جا سکتا:شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''کارکنوں کو اوچھے ہتھکنڈوں سے خوفزدہ نہیں کیا جا سکتا‘‘ اس لیے اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے اسے اچھے ہتھکنڈے بروئے کار لانے چاہئیں ‘کیونکہ اوچھے ہتھکنڈوں سے کارکن نہیں‘ بلکہ خود ہم خوفزدہ ہوتے ہیں ‘جیسا کہ حکومت نے ہمارے سارے خاندان کے اکائونٹس ہی منجمد کر دئیے ہیں اور اس پر بس نہیں‘ بلکہ ہمارے اثاثے بھی ضبط کرنے کا ارادہ رکھتی ہے‘اور ہمیں ڈاکو کہتی ہے؛ حالانکہ ڈاکے یہ خود ڈال رہی ہے‘ جن میں ہمارے گھر وغیرہ بھی شامل ہیں اور اگر یہی کچھ کرنا ہے تو ہمیں تنبو ہی مہیا کر دئیے جائیں‘ تاکہ ہم کسی سڑک وغیرہ پر لگا کر اپنی رہائش کا تو انتظام کر سکیں۔ کم از کم اس وقت تک جب تک ہم جیل نہیں جاتے‘ کیونکہ وہاں تو آدمی رہائش کے علاوہ کھانے پینے کے خرچے سے بھی بے نیاز ہو جاتا ہے اور کھانا بھی خاصا قابل رشک ہوتا ہے۔ ایسا کہ آدمی انگلیاں ہی چاٹتا رہ جاتا ہے۔ آپ اگلے روز جاتی امرا کے محلوں میں رشتے داروں سے ملاقات کر رہے تھے۔ 
اور اب آخر میں پیش ہے ابرارؔ احمد کی یہ نظم:
یہ شام بکھر جائے گی
ہمیں معلوم ہے/ یہ شام بکھر جائے گی/ اور یہ رنگ/ کسی گوشہ بے گام میں کھو جائیں گے/ یہ زمیں دیکھتی رہ جائے گی/ قدموں کے نشاں/ اور یہ قافلہ/ ہستی کی گزرگاہوں سے/ کسی انجان جزیرے کو نکل جائے گا/ جس جگہ آج/ تماشائے طلب سے ہے جواں/ محفل مستی و رنگ /کل یہاں/ ماتم ِ یک شہر نگاراں ہوگا/ آج جن رستوں پہ/ موہوم تمنا کے درختوں کے تلے/ ہم رکا کرتے ہیں/ہنستے ہیں/ گزر جاتے ہیں/ ان پہ یہ کیا جانیے/ کل کون رکے گا آ کر/ آج اس شور میں شامل ہے/ جن آوازوں کی دلدوز مہک/ کل یہ مہکار/ اتر جائے گی‘ خوابوں میں کہیں/ گھومتے گھومتے تھک جائیں گے/ ہم فراموش زمانے کے ستاروں کی طرح/ ارض ِموجود کی سرحد پہ/ بکھر جائیں گے/ اور کچھ دیر ہماری آواز/ تم سنو گے‘ تو ٹھہر جائو گے/ دو گھڑی رک کے/ گزر جائو گے/ دو گھڑی رک کے/ گزر جائو گے‘ چلتے چلتے/ اور سہمے ہوئے چوباروں میں/ انہیں رستوں/ انہیں بازاروں میں/ ہنسنے والوں کے/ نئے قافلے آ جائیں گے---!
آج کا مقطع
لگی ہے کیسے کوئی بد دعا کسی کی‘ ظفرؔ
کہ جسم بھی ہے تہی تاب ‘جاں بھی خالی ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں