"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں ‘ متن‘ بارش اور ابرارؔ احمد کی نظم

اپنی ساکھ اور شہرت بچانے کیلئے ہر حد تک جائوں گا: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور نواز لیگ کے صدر میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''اپنی ساکھ اور شہرت بچانے کیلئے ہر حد تک جائوں گا‘‘ مثلاً حکومت جو آئے دن میری شہرت اور ساکھ میں اضافہ کرتی ہے اور اُسے چار چاند لگاتی ہے‘ اسے بچانا میرا فرض ہے اور اسی لیے میں نے اخبار ڈیلی میل کو لیگل نوٹس کی بجائے کمپلینٹ نوٹس بھیجا ہے‘ جس میں ‘میں نے صرف شکایت کی ہے کہ آخر میں سابق وزیراعلیٰ اور ایک وزیراعظم کا بھائی ہوں اور اگر چند کروڑ ڈالر زاِدھر اُدھر ہو بھی گئے ہیں تو اس میں اتنا شور و غوغا مچانے کی کیا ضرورت ہے؟ جبکہ اس رقم پر میرا بھی کچھ حق بنتا تھا کہ میں خود بھی زلزلہ زدگان میں شامل تھا‘ کیونکہ زلزلے کی خبر سن کر میں کافی دن پریشان رہا تھا‘ نیز لیگل نوٹس اس لیے نہیں دیا کہ پھر مجھے مقدمہ بھی دائر کرنا پڑتا‘ کیونکہ ہم مقدمے بازی کو پسند نہیں کرتے اور معافی تلافی میں یقین رکھتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نیا نہ پرانا پاکستان‘ ہمارا نعرہ قائد کا پاکستان: احسن اقبال
سابق وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''نیا نہ پرانا پاکستان‘ ہمارا نعرہ قائد کا پاکستان ہے‘‘ اور ہمارے قائد کو کون نہیں جانتا جو جیل سے بھی ہماری پوری پوری رہنمائی کر رہے ہیں اور یہ اُن کا پاکستان اس لیے بھی ہے کہ انہوں نے اس کی جو حالت کر دی ہے‘ کوئی اور اس کی ملکیت لینے کو تیار ہی نہیں‘ جبکہ موجودہ حکومت بھی بدحواس پھرتی ہے اور اُسے سمجھ نہیں آ رہی کہ اسے اس دلدل سے نکالنے کیلئے کہاں سے شروع کرے اور اُدھر حکومت اُن سے پیسوں کی واپسی کی امیدیں لگائے بیٹھی ہے ؛حالانکہ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ جیل میں بی کلاس کی موجودگی میں ہمارے قائد کا دماغ خراب نہیں کہ پیسوں کی واپسی پر مجبور ہو جائے‘ جبکہ پیسوں کی واپسی سے اُن کی صحت پر بھی خراب اثر پڑ سکتا ہے‘ جو قابلِ رشک حالت میں ہے اور اسی طرح زرداری صاحب سے بھی بی کلاس کے ہوتے ہوئے یہ گھاٹے کا سودا کیوں کریں گے؟ آپ اگلے روز لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
فضل الرحمن غلط کہہ رہے ہیں‘ ہم این آر او لینے نہیں گئے: شبلی فراز
قائد ایوانِ بالا شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''فضل الرحمن غلط کہہ رہے ہیں‘ ہم این آر او لینے نہیں گئے‘‘ بلکہ انہیں یہ کہنے کیلئے گئے تھے کہ آپ ایک ضرورتمند آدمی ہیں‘ یہ کن چکروں میں پڑے ہوئے ہیں‘ ہمارے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیں‘ لیکن انہوں نے کہا کہ یہ کام جہانگیر ترین صاحب کے ذریعے زیادہ خوش اسلوبی سے طے ہو سکتا تھا‘ آپ انہیں ساتھ نہیں لائے؟ بلکہ وہ اکیلے ہی تشریف لے آتے‘ لیکن ترین صاحب بہت مصروف تھے جو کہ دیگر اپوزیشن ارکان سینیٹ کو اپنی شہرہ آفاق دلیلوں سے قائل کر رہے ہیں۔ جونہی وہ فارغ ہوتے ہیں‘ آپ کی خدمت میں بھی حاضر ہو جائیں گے اور چونکہ میرے ساتھ وفد میں دیگر حضرات بھی تھے‘ اس لیے کھُل کر بات نہیں ہو سکی۔ آپ اگلے روز وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
بارش۔ بارش۔ بارش
کبھی یہ شعر کہا تھا: ؎
بارش نے یوں تو دھو دیئے دل سے تمام نقش
دیوارِ شہر کا بھی وہ عالم نہیں رہا
یہ آتی ہے تو موسم کو بھی تبدیل کرتی ہے اور کچے پکے گھروں کی دیواریں اور چھتیں بھی گراتی ہے اور یہ رحمت‘ زحمت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔اِدھر سارے درخت اور گھاس دُھل دُھلا کر نئے نئے سے ہو گئے ہیں۔ پرندے الگ سیٹیاں بجاتے پھر رہے ہیں۔ سرخاب کافی دیر بعد پھر چکر لگا کر یہاں سے آیا تھا‘ چلا گیا ہے۔ گلُو گیر کوئل بھی پھر کہیں سے آ دھمکی ہے۔ محبی عمار چوہدری کا فون آیا ہے کہ وہ کچھ دوستوں کے ہمراہ ملنے کے لیے آ رہے ہیں ع
اے آمدنت باعثِ آبادیٔ ما
اور ‘ اب آخر میں ابرارؔ احمد کی یہ نظم:
رات آتی ہے
رات آتی ہے/ دریچوں میں‘ گزر گاہوں میں/ شہر ِپُر شور کے دروازوں میں / اور آنکھوں کے نہا ںخانوں میں / جیسے خوابوں کا دُھواں اُڑتا ہے 
رات آتی ہے تو نیندوں میں کہیں/ دیکھے ان دیکھے دیئے جلتے ہیں/ کسی مدفون زمانے کے کناروں سے اُبھر آتی ہے / چہرۂ خاک پہ جھُک آتی ہے سایہ بن کر/ رات آتی ہے‘ تو ہم دیکھتے ہیں / خوابِ موجود کی تعبیر ِگزشتہ بن کر
دل میں اب کیسے نشاں جلتے ہیں / آنکھ میں کتنے مناظر ہیں / ابھی تک زندہ کیا
کیا کسی یاد کی مٹی‘ا بھی اُڑتی ہے/ کہیں سانسوں میں؟
کیسے امکان ہیں‘ کیسے دُکھ ہیں / عمرِ دو روزہ میں / کیا کچھ نہیں کر پائے ہیں ہم 
گر یہ کرتی ہوئی آوازوں کا مسکن ہے یہ رات!
نیند اُڑتی ہے تو ہم کہتے ہیں / اے سیہ پوش بتا‘ ختم ہو پائے گا کب / تنگئی کون و مکان میں یہ بھٹکنے کا صلہ
رات ہنستی ہے‘ رُلاتی ہے ہمیں!!
ہم یہ کہتے ہیں کہ اے رات‘ ستاروں بھری رات! اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں جلیں گے کب تک/ کب تلک ہم کو میسر ہے ابھی / ہم کلامی کی یہ فرصت‘ یہ خموشی‘ یہ سکوں/ کب تلک خواب ِجنوں؟/ دل میں موہوم ابد کی یہ صدائیں کب تک/ کفِ افسوس ملیں گی کب تک؟ رات بڑھتی ہے‘ لبھاتی ہے ہمیں/ اور کوئی لوری سناتی ہے ہمیں
اور ہم/ میلے تکیوں میں‘ لحافوں میں دبک جاتے ہیں / بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہیں / دیکھتے دیکھتے سو جاتے ہیں!
آج کا مطلع
گول مٹول غبارہ سی
ایک ہی بار دوبارہ سی

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں