کسی نے این آر او نہیں مانگا‘ عوام
نواز شریف کو رہا کرائیں گے: مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی سزا یافتہ صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''کسی نے این آر او نہیں مانگا‘ عوام نواز شریف کو رہا کرائیں گے‘‘ کیونکہ میں تو تمام تر کوششوں کے باوجود انہیں رہا نہیں کرا سکی؛ حالانکہ کئی اور ویڈیوز کی بھی دھمکی دی تھی‘ لیکن پہلی ویڈیو ہی اس طرح سے گلے پڑ گئی ہے کہ دوسری ویڈیوز دکھانے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔ اس لیے اب‘ نواز شریف کو رہائی دلوانے کا کام عوام پر ہی چھوڑ دیا ہے‘ جو اُن کا دور ہر وقت یاد کرتے اور کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں؛ حالانکہ کان صرف مروڑنے کے لیے ہوتے ہیں‘ لیکن اس طرح کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے پائے ‘لیکن اس کم بخت حکومت کو پتا نہیں کس طرح ہر بات کی خبر ہو جاتی ہے اور میرے ٹی ٹی اکائونٹس کا حکومت نے جس پھرتی سے سراغ لگایا ہے اس پر اس کی کارکردگی پر داد دینا تو بنتی ہے ۔ آپ اگلے روز اوکاڑہ بائی پاس کے قریب کارکنوں سے خطاب کر رہی تھیں۔
شادی کا کام والد کے ذمے لگایا‘ دعا
کریں جیل سے جلد واپس آئیں: بلاول
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''شادی کا کام والد کے ذمے لگایا‘ دعا کریں جیل سے جلد واپس آئیں‘‘ کیونکہ روٹین میں تو انہیں وہاں دس بارہ سال لگ ہی جائیں گے اور اس دوران میں شادی کے بغیر ہی بوڑھا ہو جائوں گا‘ جس کے بعد شادی کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا‘ بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جیل میں خود شادی رچا لیں ‘کیونکہ جہاں اتنی سہولیات میسر ہیں ‘وہاں شادی کرنے کی بھی اجازت ہو سکتی ہے اور چونکہ میں بھی وہیں ہوں گا‘ میری شادی کی گنجائش بھی نکل سکتی ہے‘ کیونکہ والد صاحب نہ خود پیسے واپس کریں گے اور نہ مجھے کرنے دیں گے؛ حالانکہ شریف برادران اُس وقت تک پیسے واپس کر کے مزے کر رہے ہوں گے اورجب ہم وہاں سے نکلیں گے تو دونوں ایک دوسرے کے بھائی لگیں گے اور میں بزرگی کے لحاظ سے اُن کا بڑا بھائی لگ رہا ہوں گا اور باہر نکل کر جِن وغیرہ نکالنے کے لیے عاملین کا کاروبار شروع کر دیں گے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں کے سوالات کا جواب دے رہے تھے۔
بے ضمیر‘ با ضمیر
سیاسی جماعتوں میں چند روز سے ضمیر کا چرچا زور دلی سے ہو رہا ہے‘ مثلاً: یہ کہ چیئر مین سینیٹ کیخلاف تحریک میں تحریک کے خلاف ووٹ دینے والے بے ضمیر ہیں ؛حالانکہ یہ خفیہ ووٹنگ تھی‘ جس کا مطلب ہی یہ ہے کہ یہ ووٹ پارٹی پابندیوں سے ماوراء ہو کر دیا جائے گا۔ بصورت دیگر یہ خفیہ ہی نہ ہوتی‘ نیز اب یہ کُھرا پیپلز پارٹی کے گھر جاتا دکھائی دیتا ہے‘ ن لیگ کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے جس کا اعلان بھی کر دیا ہے اور اس کی ایک منطق بھی سمجھ میں آتی ہے کہ جب وزراء کے بیانات وغیرہ سے پیپلز پارٹی نے اندازہ لگایا کہ چیئر مین جیت رہے ہیں اور ان کا ڈپٹی چیئر مین لگا جائے گا تو انہوں نے اندر خانے سودے بازی کر کے اُسے بھی بچا لیا اور اس کے بدلے ایک سوچی سمجھی سکیم کے مطابق‘ چند ووٹ چیئرمین کے حق میں ڈال دیئے اور دونوں بچ گئے۔
خواجہ آصف نے یہ بھی کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے سینیٹروں سے استعفے لیے جانا بھی ایک ڈرامہ ہے‘ جو اس نے اپنے گناہ پر پردہ ڈالنے کے لیے کیا ہے اور چیلنج کیا ہے کہ اگر ایسا نہیں ‘تو ان کے استعفے منظور کر کے دکھائے اور اس کی سب سے زیادہ تکلیف بھی ن لیگ ہی کو ہے ‘کیونکہ وہی چیئر مین کو ہٹانے میں پیش پیش بھی تھی‘ اور اب ان ''بے ضمیر‘‘ لوگوں کا کھوج لگانے کے لیے ایک تفتیشی کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے ‘جس کے لیے یہ کام ممکن ہی نہیں ہے اور یہ صرف اور صرف بعد از مرگ واویلا ہے‘ جو بجائے خود آئین کے خلاف ہے ‘کیونکہ خفیہ ووٹنگ کا مطلب ہی اپنی آزادی سے ووٹ دینا ہوتاہے۔
اس سے اپوزیشن میں جو دراڑ پڑتی نظر آ رہی ہے‘ وہ پیدا ہونا ہی تھی ‘کیونکہ دونوں جماعتوں کا یہ گٹھ جوڑ بنیادی طور پر غیر فطری تھا‘ جو اپنے انجام کو پہنچتا نظر آ رہا ہے۔ علاوہ ازیں خود ن لیگ کے دھڑوں میں اس تحریک کے ضمن میں تحفظات پائے جاتے تھے‘ جو پہلے ہی مریم نواز اور شہباز شریف دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ اس لیے خود ن لیگ کو اپنی پارٹی کو متحد کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اور ‘اب آخر میں ابرارؔ احمد کی یہ نظم:
وقت کچھ ایسا آ جاتا ہے
وہ دن بھی تھے/ جب پھول جھڑا کرتے تھے/ تمہاری باتوں سے/ کوئی مجلس چلتی رہتی تھی/ آوازوں کے جھرمٹ میں تمہاری/ رس سے بھری ہوئی/ آواز کا افسوں تھا/ جو آنکھوں میں رت جگے بچھاتا/ خواب سجاتا رہتا تھا/ سب چنتے تھے‘ وہ پھول تمہارے ہونٹوں سے/ جو لمحہ لمحہ گرتے تھے/ سب سنتے تھے/ آواز کی انگلی تھام کے/ اپنے رستے ڈھونڈتے رہتے تھے
پھر یوں ہوتا ہے/ تیر کہیں سے چلتا ہے/ اور دل میں ترازو ہوتا ہے/ آواز میں گرہیں پڑتی ہیں/ اور جل تھل ہونے لگتا ہے/ اور کاغذ بھیگنے لگتے ہیں/ تب سننے والے سنتے ہیں/ اور تمہارے لفظوں کو/ قدموں سے روند کے/ آگے بڑھتے جاتے ہیں/ آ جاتا ہے/ وقت کچھ ایسا آ جاتا ہے/ اپنی لُکنت سے گھبرا کر چُپ ہو جانا پڑتا ہے/ پھر بولتے ہیں ‘وہ لوگ/ جو سب کچھ جانتے ہیں
اور اس سے پرے راتوں کا قرینہ/ اپنی باہیں کھولتا ہے/ بھولی بسری آوازوں کی لہروں پہ کہیں/ تم چکر کھانے لگتے ہو/ کوئی چپ دُہرانے لگتے ہو...!
آج کا مقطع
ظفرؔ کرنا پڑے گا اس کو پہلی بار ہی قائل
نہ ہو پایا تو پھر بارِ دیگر کچھ بھی نہیں ہو گا