"ZIC" (space) message & send to 7575

پہنو چاند کلائی میں

یہ سید عامرؔ سہیل کا تازہ ترین مجموعۂ غزل ہے ‘جسے بُک ہوم لاہور نے چھاپا ہے۔ انتساب اس طرح سے ہے : ''عزت مآب عطا الحق قاسمی‘ جناب پروفیسر شفیق احمد اور کشمیر کے نام! ''عامر سہیل کی نئی غزلیں ‘‘کے عنوان سے اندرون سرورق اصغر ندیم سیّد لکھتے ہیں:''اگرچہ شروع ہی سے عامرؔ سہیل کی غزلوں کا مزاج جدّت پسندی کے ساتھ تجربوں کے نئے در وَا کرنے کے شوق میں رچا بسا ہوا ہے اور ایک خاص قسم کا والہانہ انداز اُسے مختلف شغف کی طرف رجوع کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ جس میں تاریخی کردار‘ تاریخی واقعات‘ لوک قصّے اور بھولے بسرے زمانوں کی ہوائیں اور راستے صاف نظر آنے لگتے ہیں‘ لیکن ان نئی غزلوں میں اُس نے کچھ اور سہولتیں پیدا کر لی ہیں۔ اب‘ لفظ کسی بھی زبان سے ہو‘ اگر معنی دے رہا ہے تو اسے استعمال کر لیا گیا ہے‘ اس کے ساتھ پانی کی لہروں کی طرح مصرعے ایک دوسرے سے اٹھکیلیاں کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ وفور ِجذبات اور فطری وا رفتگی نے ان غزلوں میں ایک مختلف فضا پیدا کر دی ہے۔ عامر ؔسہیل نے اساطیر کے ساتھ ساتھ داستانوی مزاج کو بھی کئی جگہ استعمال کیا ہے۔ جس سے استعارے کی گہرائی پیدا ہو گئی ہے۔ محبت کے معاملات مختلف کیفیات کو ڈرامائی انداز سے بیان کرنے کے لیے پہلو تلاش کیے گئے ہیں‘ ویسے تو آج کی غزل میں قدیم تہذیبوں کے قصّوں کے کردار دوسرے شعراء بھی استعمال کر رہے ہیں‘ لیکن عامرؔ سہیل نے اس میں ندرت پیدا کی ہے کہ پوری حکایت نہیں لی‘بس اس کا کچھ حوالہ اور مزاج لے لیا ہے۔ باقی مضمون اپنی مرضی سے باندھا ہے۔میں عامرؔ سہیل کو ابھی اور نئی جدلیات سے جُڑتے ہوتے دیکھ رہا ہوں۔ اس سے شعر کی دنیا بہت مختلف اور پہلو دار ہو جائے گی۔ دیکھیں نئے معجزے اظہار میں کیا رنگ دکھاتے ہیں۔‘‘
پس سرورق موصوف نے اپنی تصویر اور دو اشعار کے ساتھ خاکسار کی رائے بھی درج کر رکھی ہے‘ جس کے مطابق: شاعری میں دوسروں سے مختلف ہونا تو ضروری ہے ہی‘ اس میں اپنی الگ فضا بنانا اس سے بھی آگے کی بات ہے‘ تا کہ بعد میں آنے والے اس میں کھل کر سانس لے سکیں‘ شاعری کو ایک طرف کھلی ہوا کی ضرورت ہے تو ایک طرف وہ تازہ ہوا خود بھی بناتی ہے۔ نامانوس الفاظ کو مانوس بنا دینے سے بڑھ کر شاعری کی خدمت اور کیا ہو سکتی ہے ‘جو سید عامرؔ سہیل کی متعدد صفتوں میں سے ایک ہے۔ میں نے ایک بار کہا تھا کہ زیادہ تر نئے شعرا‘ ظفرؔ اقبال بننے کی کوشش کرتے ہیں ؛حالانکہ ان کے اندر ظفرؔ اقبال سے آگے نکلنے کا عزم و حوصلہ ہونا چاہیے۔ سو ‘ سید عامر سہیل مجھ سے آگے نکلنے والوں میں ایک خوبصورت اضافہ ہے۔ نئی شاعری کو مبارک ہو!
خوبصورت اور خیال انگیز ٹائٹل کے ساتھ ڈیزائننگ محمد احسن گل کی ہے۔ جس نے گٹ اپ کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ میری اس شاعری کے بارے میں بُری بھلی رائے آپ نے دیکھ ہی لی ہے‘ اس لیے اب ان کے کلام کی طرف آتے ہیں: 
تجھ میں ہیں یا ترے ٹوٹے ہوئے پیمان میں ہم
کاسنی ہجر بچھا لیتے ہیں دالان میں ہم
خود کو اُس شامِ ملاقات میں چھوڑ آئے تھے
جب تری زُلف نہ رکھ پائے تھے سامان میں ہم
فجر شیشے میں نہیں‘ اجر وظیفے میں نہیں
بس تجھے سوچ کے چل پڑتے ہیں طوفان میں ہم
مینہ برسنے کی قسم‘ اپنے ترسنے کی قسم
ایک چہرہ ہے جسے رکھتے ہیں جُزدان میں ہم
کسی دجلے کی طرح‘ آنکھ میں کجلے کی طرح
ہم تری نیند میں ہم‘ ہم ترے ہیجان میں ہم
آسمانوں کا مگر قرض اترتا ہی نہیں
روز اک یار ادا کرتے ہیں تاوان ہیں ہم
خود کو توہین کی رسّی سے گھسیٹیں گے کبھی
جھانک سکتے ہیں کبھی اپنے گریبان میں ہم
آخر اک روز تو پریوں کو پتا لگنا ہے
کتنے دن چھُپ کے گزاریں گے پرستان میں ہم
حُور و غلمان فسانہ تو نہیں ہیں عامرؔ
چھُو بھی سکتے ہیں اُنہیں سُورۂ رحمان میں ہم
درد کے شیڈ ہنسیں یا ترے اُبرو کے بلیڈ
تیرے ہونٹوں کا کلر بھرتے ہیں گُلدان میں ہم
جگ ہنسائی کے لیے اشک اکٹھے کر کے
درد کو ساتھ لیے پھرتے ہیں سرطان میں ہم
شہر اندھیر بدن ڈھیر کیے پھرتے ہیں
تیری آنکھوں کے دیئے بیچ کے نقصان میں ہم
ہم سے ناراض عشاء اور تہجد عامرؔ
یار کے راز اُگل دیتے ہیں ہذیان میں ہم
آج کا مطلع
دل کے اندر جی سکتی ہے‘ مر سکتی ہے
خواہش خود مختار ہے‘ کچھ بھی کر سکتی ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں