ای سی ایل سے نام نکالا جائے: راجا پرویزاشرف
سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے کہا ہے کہ ''ای سی ایل سے نام نکالا جائے‘‘ کیونکہ میں لندن سے علاج کروا کر فوراً واپس آ جائوں گا؛ بشرطیکہ انہوں نے واپسی کی اجازت دے دی کہ لندن کے ڈاکٹر بہت لالچی واقع ہوئے ہیں اور جب تک مریض فوت نہ ہو جائے‘ جان ہی نہیں چھوڑتے‘ تاہم دفن میں اپنے ملک ہی میں ہونا پسند کروں گا‘ کیونکہ جس نے اتنا نامور بنایا ہے‘ اس سے دُور تو مر کر بھی نہیں رہنا چاہیے اور جہاں تک میرے خلاف انکوائریوں اور مقدمات کا تعلق ہے اور اگر ان میں سزا وغیرہ بھی ہو جائے تو حساب برابر کرنے کیلئے میری جائیداد اور اثاثے موجود ہیں‘ کیونکہ میں کوئی میاں نواز شریف یا زرداری نہیں ہوں کہ پروں پر پانی ہی نہ پڑنے دوں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت اپنی مقبولیت کھو رہی ہے: یوسف رضا گیلانی
سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''حکومت اپنی مقبولیت کھو رہی ہے‘‘ جبکہ ہماری مقبولیت میں دن دگنی‘ رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے ‘بلکہ جب سے میں نے حکومت کے ختم ہونے کے بعد ڈاکٹری چھوڑی ہے‘ لوگوں نے بیمار ہونا ہی ترک کر دیا ہے کہ میرے ہاتھ میں جو شفا تھی‘ اسے وہ ابھی تک یاد کرتے ہیں ‘جبکہ اب تو صرف تعویز دھاگے پر ہی گزر بسر ہو رہی ہے اور اگر برخوردار بلاول جعلی اکائونٹس کیس میں اندر نہ ہو گئے اور اگلی بار اقتدار ہمیں پھر مل جائے تو اپنی پریکٹس دوبارہ شروع کر دوں گا‘ بلکہ میری دیکھا دیکھی گھر کے دیگر افراد نے بھی علاج معالجے کا کام شروع کر دیا تھا‘ کیونکہ اس میں فیس کے علاوہ کارِ ثواب بھی شامل ہے؛ اگرچہ ثواب ہم پہلے ہی کافی کما چکے ہیں اور مزید کی ضرورت ہرگز نہیں ہے۔ آپ گیلانی ہائوس میں جام پور سے آئے ہوئے ایک وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
تصویر نہیں‘ زنجیر
محبی علی اصغر عباس نے فون پر کل والے کالم کے حوالے سے بتایا ہے کہ حسن نثار نے جو پرچہ نکالا تھا‘ اس کا نام تصویر نہیں‘ بلکہ زنجیر تھا۔ میں نے کہا: چلو قافیہ تو مل گیا۔ اصولی طور پر تو ریکارڈ کی یہ درستی حسن نثار کو کرنا چاہیے تھی‘ لیکن انہوں نے شاید اس لیے نہیں کی کہ ایک زائد پرچے کا کریڈٹ مل رہا ہے‘ یعنی ع
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے
آفتاب اقبال کی تاریخ پیدائش 19 ستمبر ہے‘ لیکن میں نے اسے مبارکباد کل 19 اگست کو ہی ٹھوک دی‘ جس پر اس نے تصحیح کی۔ اوکاڑہ میں ہمارے پھُوپھا میاں مولا بخش ہوا کرتے تھے۔ جنہوں نے وہاں ایک ٹی بی ہسپتال بھی قائم کر رکھا تھا‘ جو غالباً ابھی تک کام کر رہا ہے۔ آفتاب پیدا ہوا تو اُسے گڑھتی انہی بزرگ نے دی تھی۔تقسیم سے قبل وہ اپنے مزارعین کی ایک بارات لے کر امرتسر گئے اور مقررہ تاریخ سے ایک مہینہ پہلے ہی چلے گئے‘ یعنی غلطی تاریخ کی نہیں ‘بلکہ مہینے کی تھی‘ سو بیچارے سسرالیوں کو پوری بارات کو پورا ایک مہینہ اپنے پاس رکھنا پڑا۔ اب میں سوچ رہا تھا کہ میاں مولا بخش نے گڑھتی تو آفتاب کو دی تھی‘ لیکن اُن جیسی حرکتیں میں نے شروع کر دی ہیں!
چار برگ
کالم میں اپنی شفٹنگ کی اطلاع دے چکا ہوں تو احباب ایک ایک کر کے ٹپکنا شروع ہو گئے ہیں اور خوب رونق لگی رہتی ہے۔ آج صبح ذوالفقار علی خاں تشریف لے آئے۔ جب میں ہائی کورٹ میں پریکٹس کر رہا تھا تو یہ وہاں ایک بینکنگ کورٹ کے جج تھے۔ شاعر ہیں اور بقاؔ تخلص کرتے ہیں۔ اپنا تازہ مجموعۂ کلام بھی مرحمت فرمایا۔ عنوان ہے ''چار برگ‘‘ جس کے تقسیم کندگان ریحان برہان برادرز 91 ڈی ماڈل ٹائون لاہور ہیں۔ انتساب لائق و پیاری بیٹی تبسم ایم اے ایم فِل اردو کے نام ہے۔ اختصاص نامی پیش لفظ میں آپ بتاتے ہیں کہ چار برگ لالہ کے پھول کو کہتے ہیں۔ مختصر دیباچہ نوازش علی شیخ نے لکھا ہے۔ شروع میں جلوۂ عارض کے عنوان سے یہ شعر درج ہے ؎
جب تک نصیب جلوۂ عارض نہ ہو بقاؔ
شاید حدیثِ مینا و ساغر نہ کر سکوں
اس کے بعد یہ شعر ہے ؎
گورے کالے احمر اسود آدم کی اولاد
سب کا ایک ہے اللہ والی اس کا ایک ارشاد
زیادہ تر نظمیں مذہبی اور روحانی ذائقہ لیے ہوئے ہیں۔ کچھ تراجم بھی شامل ہیں۔اور اب عامرؔ سہیل کی تازہ غزل؛
جو آنکھ جاڑے میں روتی ہے‘ ہو غلافی کچھ
میں کر سکوں تری توہین کی تلافی کچھ
تری ہنسی نے‘ ترے آنسوئوں نے‘ ہونٹوں نے
لکھے ہیں نوٹ محبّت پہ اختلافی کچھ
یہ آسمانوں کا دستور تو نہیں ہو گا
زمین پر نہیں ملتی ہمیں معافی کچھ
غزل جگاتی ہے‘ پھر دیر تک رُلاتی ہے
ہے اُس کی یاد میں تسکین سے اضافی کچھ
کراہتا ہے‘ بہت چاہتا ہے حُسن مجھے
بدن سے باندھی ہوئی برچھیاں ہیں کافی کچھ
یہ جاہ و ثروتِ دربار‘ نوکِ پا پہ مری
لہو میں باغیوں جیسا ہے انحرافی کچھ
پچھاڑ دیتی ہے‘ سپنے اکھاڑ دیتی ہے
ادائے خاص ہے اُس کی یہ موشگافی کچھ
ابھی میں دیکھ رہا ہوں جہان کے تیور
یہ عہد ہے مری آواز سے منافی کچھ
دمک اٹھیں گے زمینوں کے نقش بھی عامرؔ
میں کر رہا ہوں جہانوں میں نُوربانی کچھ
آج کا مطلع
ابھی کچھ دیر اُس کو یاد کرنا ہے
ضروری کام اِس کے بعد کرنا ہے