غزلوں کا یہ مجموعہ ہمارے شاعر اور ناشر دوست خالد شریف نے ''ماورا‘‘ بکس سے چھاپا ہے۔ پس سرورق ناشر ہی کا تحریر کردہ ہے‘ جبکہ اندرون سرورق امجد اسلام امجد کے قلم سے ہے‘ جس میں وہ لکھتے ہیں کہ''نیلم ملک کو چند برس پہلے ایک شعری محفل میں مَیں نے پہلی بار سُنا تو بے حد تعجب ہوا کہ ایسی اچھی اور تازہ کار شاعرہ اتنے دنوں تک نظر سے اوجھل کیسے رہی۔ اس کی غزل کے بعض مضامین اور امیجز ایسے تھے جو بیحد چونکانے والے تھے اور صاف معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی کی تقلید کرنے کے بجائے اپنے لہجے اور انداز پر بھروسہ کرتی ہے اور اس کی ہر غزل میں زیادہ تر اشعار ایسے ہوتے ہیں جنہیں بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے‘‘۔
خالد شریف کی رائے میںنیلم ملک ایک تازہ کار شاعرہ ہے جس نے بہت تھوڑے عرصے میں اردو غزل کی دنیا میں اپنی پہچان بنا لی ہے۔ نیلم کے اشعار دھیمی آنچ پر پکے ہوئے ہیں اسی لیے ان کا رس اور رنگ منفرد ہے۔ وہ لمحۂ موجود کے شعری رویوں سے بخوبی آشنا اور اپنے حلقۂ احباب سے جڑی رہنے کی وجہ سے عصری تقاضوں کا ادراک رکھتی ہے۔ پہلی کتاب ہونے کے باوجود حیرت انگیز طور پر اس کے کلام میں پختگی ہے جو غزل کے مستقبل کے لیے ایک خوش آئند علامت ہے۔دیباچے شہزاد نیئر اور حسین مجروح نے لکھے ہیں اور بجا طور پر اس شاعری کی بیحد تعریف کی ہے جبکہ ''نیلمیت کا کھوج‘‘ کے عنوان سے مفصل پیش لفظ شاعرہ کا قلمی ہے۔ انتساب اماںکے نام ہے۔ ٹائٹل عمدہ اور پسِ سرورق شاعرہ کی تصویر ہے۔
میرے پاس خواتین کے شعری مجموعے اکثر و بیشتر تبصرے کے لیے آتے رہتے ہیں جو زیادہ تر مایوس کن ہی ہوتے ہیں اور جن میں سکہ بند لکھنے والیاں بھی شامل ہیں اور مجھے کسی غزل گو شاعرہ نے آج تک متاثر نہیں کیا ہے۔ پروین شاکر نے شہرت اور مقبولیت ضرور حاصل کی لیکن اس کے اسباب شاعری کی بہ نسبت دوسرے زیادہ تھے جن کے بارے میں لکھ بھی چکا ہوں جبکہ نیلم کے بعض شعر دیکھ کر میں بھی ایک خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو گیا ہوں۔
چند ا شعار دیکھیے:
سُوکھے جھیل تو ایک مکان بنانا ہے
پربت ہٹے تو اک دروازہ کھولوں میں
باہر سے جب کھولتے ہیں تو کھلتا ہے بس دروازہ
اندر سے کھل جائے اگر تو سارا گھر کھل جاتا ہے
نامعلوم کے کھوج میں اک دن نکلے تھے
تب سے نامعلوم رہے ہیں ہم دونوں
میں تو اپنے بھی آس پاس نہیں
اور ہو جاؤں میں کہاں سے پرے
قسمت کا پھیر ہے جو پھراتا ہے در بدر
ہم بدنصیب گھر سے نکالے نہیں ہوئے
ہم مقابل نہ آ سکے خود کے
تیرے پیچھے چھپا لیا خود کو
نہ کھنکے جو ظرفِ تہی کی طرح سے
تو کشکول بن کر بھرے جائیں گے ہم
اُس یاد نے دل دشت میں پھر دُھول اڑائی
وہ یاد کہ جو باد ِ بہاری کی طرح ہے
ہم آسماں کے سفر پر تھے رات بھر دونوں
ہوئی سحر تو ملے اپنے اپنے گھر دونوں
اپنے اندر کے کسی خوف میں جکڑے ہوئے لوگ
دوسروں کو بھی بغاوت نہیں کرنے دیتے
سوچ کی ڈور سلجھے بھی کیا
اس کا اگلا سرا ہی نہیں
اُس ایک لمحے کا رنگ عمروں پہ چھا گیا ہے
وہ ایک لمحہ کہ رنگ جس میں بھرے نہیں تھے
اور اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل
جو لکھ نہیں سکے وہ زبانی سے آئے گا
پانی ابھی کچھ اور روانی سے آئے گا
کچھ گفتگو میں ہو گا ہنسی کھیل کا بھی رس
کچھ رنگ اس میں مرثیہ خوانی سے آئے گا
خوابوں میں سرسرائے گی گل دامنی ہوا
ہلکا سا شور برگِ خزانی سے آئے گا
گم گشتگی کا غم نہیں،سارامزا تو اب
ہم کو تری سراغ رسانی سے آئے گا
دُنیا کو اب ہمارے نہ ہونے کا کچھ یقیں
چھوڑی ہوئی ہماری نشانی سے آئے گا
تعمیر کا نیا کوئی انداز ہے اگر
سو بھی ہماری خستہ مکانی سے آئے گا
یہ دن بھی دیکھنا تھے کہ اے پیکرِ جمال
تیرا خیال یاد دہانی سے آئے گا
کردار بھاگ اٹھیں گے باہر نکل کے سب
ایسا بھی کوئی خوف کہانی سے آئے گا
باتوں میں ساری بات نہ کہنے کی ہے، ظفر
لفظوں میں لطف قطعِ معانی سے آئے گا
آج کا مقطع:
ہم نے چھیڑا نہیں اشیائے محبت کو، ظفر
جو جہاں پر تھی پڑی اُس کو وہیں رہنے دیا