ڈیلی میل اور صحافی نے لیگل نوٹس کا جواب نہیں دیا: شہباز شریف
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور نواز لیگ کے صدر میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''ڈیلی میل کے صحافی نے میرے لیگل نوٹس کا جواب نہیں دیا‘‘ اس لیے میں اور مریم احتساب ادارے کے کسی سوال کا جواب نہیں دے رہے کیونکہ سوالات ہی اس قدر ذاتی ہیں جبکہ کسی کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے جیسا کہ ہم نے اپنے ادوار میں کسی کے ذاتی معاملات میں کبھی دخل نہیں دیا اور سر نہوڑائے ایک ہی کام کرتے رہے جو ہمیں آتا ہے اور اتنا نتیجہ خیز بھی تھا کہ ساری دنیا اس کی گواہ بھی ہے‘ حالانکہ ہمارے دور ِحکومت میں اس قسم کی گواہیاں دینے کی کبھی جرأت نہیں ہوئی تھی۔ آپ اگلے روز سوشل میڈیا پر ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
حکمران کسی اور کی بات سننے کو تیار نہیں: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکمران ٹرمپ کے دیوانے، کسی اور کی بات سننے کو تیار نہیں‘‘ حتیٰ کہ میری بات بھی سننے کو تیار نہیں ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ ان کے کانوں میں کوئی نقص ہے یا وہ جان بوجھ کر سنی ان سنی کر دیتے ہیں، اس لیے میں بیان دیتا رہتا ہوں‘ لیکن وہ اسے بھی نہیں پڑھتے، حالانکہ بات سن لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، بیشک اس پر عمل کریں نہ کریں کیونکہ باتیں تو صرف باتیں ہوتی ہیں جبکہ عمل خاموشی سے کیا جاتا ہے اور میرے پاس خاموش رہنے کا وقت ہی نہیں ہوتا اور اپنا بیان خود ہی بار بار پڑھتا رہتا ہوں تاکہ کوئی غلطی نہ رہ گئی ہو کیونکہ آخر آدمی خطا کا پتلا ہے۔ آپ اگلے روز جامعہ منصورہ میں جمعہ کے بڑے اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
عوام چور چور کا شور سن کر تنگ آ چکے ہیں: عظمیٰ بخاری
مسلم لیگ ن پنجاب کی سیکرٹری اطلاعات عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ ''عوام چور چور کا شور سن کر تنگ آ چکے ہیں‘‘ کیونکہ حکومت صرف شور مچا رہی ہے حالانکہ ان کو اپنے مقدمات پر بھی کچھ توجہ دینی چاہیے جو سال سال بھر تک چلتے رہتے ہیں جبکہ ان کی پراسیکیوشن کی صورت حال اس سے بھی زیادہ قابل رحم ہے نیز شور مچانے کی بجائے اگر آہستہ آہستہ بھی چور چور کرتے رہیں تو ان کا مقصد پورا ہو سکتا ہے اور چوروں کو بھی پریشانی سے دوچار ہونا نہیں پڑتا جو اس شور سے خواہ مخواہ بور ہوتے رہتے ہیں حالانکہ وہ اطمینان سے پھر رہے ہوتے ہیں ہونا ہوانا تو ہے کچھ نہیں کیونکہ اب تو ایک چھوٹی سی ویڈیو سے بھی مسئلہ حل ہو جاتا ہے، اور یہ ایک طرح کا شارٹ کٹ بھی ہے جس سے فریقین کا قیمتی وقت بھی ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلم اقبال کے بیان پر اپنا ردعمل ظاہر کر رہی تھیں۔
سیاحت کے لیے بہترین مقامات بنائیں گے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ہم سیاحت کے لئے بہترین مقامات بنائیں گے‘‘ اگرچہ سیاحت کے لیے ہم خود بھی کافی ہیں کیونکہ ہم بھی قابل دید مقامات سے کچھ کم نہیں جبکہ ہمارے ساتھ ہماری کارکردگی بھی بجائے خود ایک عجوبہ ہے اور ایک عبرت انگیز مقام کی حیثیت رکھتی ہے‘ کیونکہ بغیر کچھ خرچ کیے اگر عبرت بھی کہیں سے حاصل ہو سکتی ہو تو کر لینی چاہیے جبکہ سیاحت کو مزید پرکشش بنانے کے لیے ہم مجسمے بنا کر بھی اہم چوکوں میں نصب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے لیے لاہور میں اسمبلی کے سامنے کئی رہنماؤں کے مجسموں کے لیے جگہ مناسب رہے گی جبکہ قومی رہنماؤںکے مجسموں کیلئے اسلام آباد میں ڈی چوک کا علاقہ مناسب رہے گا؛ چنانچہ مرکزی و صوبائی کابینہ کے معزز اراکین سے بھی کہہ دیا گیا ہے کہ وہ مجسموں کے لیے جگہ کا انتخاب فوری طور پر کر لیں جبکہ مجسموں کی فوری تیاری کا آرڈر بھی دیا جا رہا ہے، سیاحتی مقامات تک جانے والی سڑکیں بھی نہایت خستہ حالت میں ہیں‘ جن کے لیے کافی خرچہ درکار ہوگا۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور، اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد کی نظم:
سارہ کی پوٹلی
سارہ ہنستی، بال بناتی/ میک اپ کرتی ہے/ چھوٹے چھوٹے پیروں میں پمپی پہنے/ اِدھر اُدھر لہراتی ہے/ گرتی، اٹھتی بھاگتی ہے/ اپنے اُجلے پن پر/ اپنے ہونے پر/ اتراتی ہے/ ہر پہلی کو سالگرہ کا کیک منگا کر/ جھومتی، ناچتی مشروبات اُڑاتی/ شور مچاتی ہے/ اپنے اچھے، پیارے بھائیوں سے لڑتی ہے/ رُعب جماتی ہے/ اور کہیں جاتی ہے، تو/ اک پوٹلی میں/ اپنی پیاری ہنسی‘ کھلونے/ باربی ڈول اور سرخی پاؤڈر/ کنگھی اور فراک کے ساتھ/ مجھے بھی ٹھونس کے لے جاتی ہے/ اب وہ تھوڑی سیانی ہے/ سب کچھ جاننے کی خواہش میں/ سنجیدہ سی رہتی ہے/ سمجھتی ہے، سمجھاتی ہے/ دُور کی کوڑی لاتی ہے/ کھلتی ہے/ مُسکاتی ہے/ فالتو خرچ پہ کڑھتی، ڈانٹ پلاتی ہے/ میرے تھکے ہوئے سر کو سہلاتی ہے/ زندہ رہنے پر اُکساتی ہے/ وہ خوشبو ہے محبت کی/ سارے میں پھیلی رہتی ہے/ سینے کے بے پایاں پن میں/ ہنسی کی گونج ہے/ چاہت سے خالی دنیا کی خاموشی میں/ نغمۂ جاں ہے/ زندگی بھر کی محبت کی کومل دھڑکن ہے
جب اک روز/ میں اُس سے دُور چلا جاؤں گا/ اس کے دل میں آنسو/ روشن آنکھوں میں/ کسی ستارے کی صورت میں چموں گا/ سب سے چھپ کر/ وہ گرہوں میں اُلجھی پوٹلی کھولے گی/ اپنے کھوئے ہوئے بچپن کو/ میری محبت، پاگل پن کو ٹٹولے گی/ دیر تلک اور دور تلک... ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک جائے گی جانے کیا سوچے گی
''ابھی ابھی تو یہیں کہیں تھے/ اس گدڑی، اس دل کے اندر/ ڈولی کی نیلی آنکھوں میں ان کی پرچھائیں پڑتی ہے/ دیواروں سے/ ابھی تو ان کی باتوں کی آواز سنائی دیتی ہے/ ابھی تو ان کی باس آتی ہے/ یہاں وہاں سے/ میں نے خود اپنی سانسوں سے گرہ لگا کر رکھا تھا/ ہوا اُڑا کر لے گئی اُن کو/ یا پھر مجھ سے چھپے ہوئے ہیں/ کوئی بتاؤ کہاں پہ ڈھونڈوں/ جانے کدھر کو نکل گئے ہیں‘‘
آج کا مطلع:
ہماری نیند کا دھارا ہی اور ہونا تھا
یہ خواب سارے کا سارا ہی اور ہونا تھا