"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن اور الیاسؔ بابر اعوان کی شاعری

فرسودہ نظام ٹھیک کرنے کیلئے ایک سال ناکافی ہے: فردوس عاشق
وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''فرسودہ نظام ٹھیک کرنے کیلئے ایک سال ناکافی ہے‘‘ اس لیے اس کے لیے کم از کم ایک سو سال چاہئیں اور تب تک ہم اسے مکمل طور پر ٹھیک کر لیں گے‘ بلکہ یہ جس قدر فرسودہ ہو چکا ہے‘ شاید اس کے لیے قیامت تک کا انتظار کرنا پڑے‘ جبکہ وہ بھی جلدی ہی آنے والی ہے‘ کیونکہ ملک میں جس درجے کی لوٹ مار ہوئی ہے‘ یہ قرب ِقیامت ہی کی نشانی ہے۔ اس لیے اپوزیشن والوں کو چاہیے کہ اس سے پہلے پہلے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لیں ‘ورنہ قیامت کے بعد کسی کی معافی قبول نہیں ہوگی اور ہماری سفارش بھی کارگر نہ ہوگی۔ بقول شاعر ع
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
جبکہ ان کیلئے بہتر ہے کہ حکومت کے خلاف تحریکیں چلانے اور لاک ڈائون وغیرہ کرنے کی بجائے ہروقت اللہ اللہ کیا کریں ‘جبکہ حکومت کے خلاف تحریکیں چلا کر یہ اپنا قیمتی وقت ہی ضائع کریں گے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں کشمیر میڈیا سیل کا اعلان کر رہی تھیں۔
کشمیریوں کے قتل عام سے کئی برہان وانی پیدا ہوں گے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''کشمیریوں کے قتل عام سے کئی برہان وانی پیدا ہوں گے‘‘ اور اسی طرح مجھے جیل میں ڈالنے سے بھی کئی شہباز شریف پیدا ہوں گے؛ اگرچہ وہ سب کے سب میری طرح کمر کے درد میں مبتلا ہوں گے‘ جس کے علاج معالجہ پر حکومت کا بے اندازہ خرچ ہوگا اور اس صورت میں کہ ہماری اور زرداری کی طرف سے حکومت کو ایک پیسہ بھی واپس نہیں ہوگا تو اسے کم سے کم خرچ کرنے اور کفایت شعاری سے کام لینے کی ضرورت ہے‘ جبکہ جیل میں دستیاب سہولتوں کو دیکھ کر تو ہر شخص کا قید ہونے کو جی چاہتا ہے‘ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ مجھے اندر کرنے کے گھاٹے کے سودے سے اجتناب کرے اور نواز شریف کو بھی رہا کرے اور پیسوں کی واپسی کے ضمن میں وہ خاطر اچھی طرح سے جمع رکھے ۔ آپ اگلے روز مقبوضہ کشمیر ایشو پر بیان دے رہے تھے۔
حکومت نے معیشت اور ادارے تباہ کر دیئے: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر برائے اطلاعات اور نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''حکومت نے معیشت اور ادارے تباہ کر دیئے‘‘ حالانکہ ان میں مزید تباہ ہونے کی ہرگز کوئی گنجائش نہیں تھی‘ کیونکہ ہم یہ کام نہایت احسن طریقے سے مکمل کر چکے تھے‘ اس لیے حکومت نے فضول وقت ہی ضائع کیا ہے‘ جس سے لگتا ہے کہ اسے وقت کے قیمتی ہونے کا کوئی احساس نہیں‘ جبکہ ہمارے قائدین کے نزدیک وقت کی پاسداری اس قدر لازمی تھی کہ وہ ادھر اُدھر وقت ضائع کرنے کی بجائے ایک ہی کام کرتے رہے اور اسے اوجِ کمال تک پہنچا کر دکھا دیا‘ لیکن اس میں بھی اس قدر باریکی کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا کہ اس کی تفصیلات معلوم کرنے کیلئے اداروں کی عقل نے ہی جواب دینا شروع کر دیا ہے ‘کیونکہ ہم نے اس کام کو ایک سائنس کا درجہ دے دیا تھا اور حکومت کو چاہیے کہ اس سائنس کو تعلیمی نصاب میں ہر سطح پر شامل کرے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان کی تقریر پر اپنا رد عمل ظاہر کر رہی تھیں۔
درستی
جناب شکیل فاروقی نے گزشتہ دنوں اپنے کالم میں ایک شعر بقول شاعر اس طرح درج کیا ہے: ؎
مصلحت کچھ تو ہے جو ہم چُپ ہیں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
یہ غالبؔ کے ضرب المثل اشعار میں سے ہے اور جس کی اصل شکل اس طرح سے ہے : ؎
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چُپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
فاروقی صاحب کا نقل کردہ مصرعۂ اول‘ چونکہ بروزن بھی ہے اور با معنی بھی‘ اس لیے یہ گمان گزرتا ہے کہ صاحب ِموصوف کو غالبؔ کا مصرعہ کچھ زیادہ پسند نہیں تھا‘ اس لیے اس کی اصلاح فرمائی ہے‘ جبکہ اپنی بزرگی کے بل بوتے پر وہ ایسا کر بھی سکتے ہیں : ع
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے!
اور اب آخر میں الیاسؔ بابر اعوان کی شاعری:
دل رکھا ہوتا ہے اک تنگ گلی کے جیسا
اور گھروں میں بڑے دالان بنے ہوتے ہیں
پنجرے کے ٹوٹ جانے کا نقصان بھی تو ہے
لیکن مری رہائی کا اعلان بھی تو ہے
سب لوگ جا چکے ہیں مگر میں وہیں پہ ہوں
ہمراہ ایک شخص کا سامان بھی تو ہے
ابتداء درمیان سے ہوئی ہے
گفتگو آسمان سے ہوئی ہے
خود سے ٹکرا کے گزرنا پڑے آخر اس تک
کوئی یوں پاس نہ ہو ایسے کبھی دور نہ ہو
اُمڈنے لگتی ہے آنکھوں سے روکتے ہوئے بھی
میں اک ادھوری محبت سے یوں بھرا ہُوا ہُوں
یہ لوگ جلد ہی پتھر میں ڈھلنے والے ہیں
کسی سے کوئی یہاں ہم کلام ہے ہی نہیں
میں دیکھتا ہوں انہیں اور گزرتا جاتا ہوں
تمام چہرے ہیں چہروں کے نام ہے ہی نہیں
تمہاری مرضی ہے رکھ لو ہمیں کہ ٹھکرا دو
ہمارے پاس محبت کا دام ہے ہی نہیں
یہ لوگ اسے تری تصویر ہی سمجھتے ہیں
پر اس کے جیسا کوئی خوش کلام ہے ہی نہیں
آج کا مقطع
اک لہر ہے کہ مجھ میں اُچھلنے کو ہے ظفرؔ
اک لفظ ہے کہ مجھ سے ادا ہونے والا ہے

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں