حکومت کی خارجہ پالیسی نے پاکستان کو تنہا کر دیا: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت کی خارجہ پالیسی نے پاکستان کو تنہا کر دیا‘‘ بلکہ مجھ سے دُور ہو کر وہ اور زیادہ تنہا ہو گئی ہے اور کوئی اسے پوچھنے والا نہیں‘ لہٰذا مجھے اپنے قریب کرنے کیلئے اسے کوششیں کرنی چاہئیں‘؛اگرچہ میں اس کیلئے تیار ہی بیٹھا ہوں اور اسے میری خدمات سے حتیٰ الامکان فائدہ اٹھانا چاہیے‘ کیونکہ میری جماعت تو بدقسمتی سے مجھ سے کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھا سکی ‘ کیونکہ فائدے کے بھی طریقے ہوتے ہیں‘ جن سے حکومت مکمل طور پر نابلد ہے اور جماعت کو تو بالکل ہی نہیں آتے اور عام انتخابات میں ہر بار اپنا سا منہ لے کر بیٹھ جاتی ہے؛ حالانکہ اپنا سا منہ لے کر کھڑی بھی رہ سکتی ہے۔ آپ اگلے روز دیر میں وفود سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت فیل ہو چکی ہے‘ نئے الیکشن کرانا چاہئیں۔ مصدق ملک
مسلم لیگ نواز کے رہنما ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا ہے کہ ''حکومت فیل ہو چکی ہے‘ نئے الیکشن کرانا چاہئیں‘‘ پیشتر اس کے کہ ہمارے سارے اوّل درجے کے رہنما اندر ہو جائیں اور چونکہ مریم بی بی کا اب کوئی چانس نہیں رہا ‘اس لیے وزارت عظمیٰ کیلئے میرے نام پر غور ہو سکتا ہے ‘کیونکہ میں نے احتیاطاً اپنے قائد سے تیز رفتار ترقی اور اُس کے جملہ لوازمات اچھی طرح سیکھ لیے ہیں اور میں ملک کی تاریخ بدل کر رکھ دوں گا۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی کے ایک پروگرام میں شاملِ گفتگو تھے۔
درستی
عزیز و محترم حسن نثار نے اپنے کل والے کالم میں عدیم ہاشمی کا شعر اس طرح نقل کیا ہے : ؎
بچھڑ کے تجھ سے نہ دیکھا گیا کسی کا ملاپ
اڑا دیئے ہیں پرندے شجر پہ بیٹھے ہوئے
جبکہ مصرعہ ثانی میں ''شجر پہ‘‘ کی بجائے ''شجر میں‘‘ ہے۔ جنابِ عدیم ہاشمی کا ایک اور خوبصورت شعر یاد آ رہا ہے ؎
کٹ ہی گئی جدائی بھی‘ کب یہ ہوا کہ مر گئے
تیرے بھی دن گزر گئے‘ میرے بھی دن گزر گئے
منیرؔ نیازی پرلے درجے کے جملے باز تو تھے ہی‘ منہ پھٹ اور بدلحاظ بھی کافی تھے۔ ایک بار عدیم ہاشمی سے بولے کہ میں تو خوبصورت ہوں اس لیے خوبصورت شعر کہتا ہوں۔ تم اتنے بدصورت ہو کہ اتنے خوبصورت شعر کیسے کہہ لیتے ہو؟ شہزاد احمد‘ منیر نیازی کو پسند نہیں کرتے تھے‘ ان کے بارے میں کہا کہ جتنا نقصان اُردو غزل کو شہزاد احمد کی موجودگی نے پہنچایا شاید ان کی وفات بھی نہ پہنچا سکے!
مجاہد بریلوی نے اپنے کالم میں عدمؔ کا شعر اس طرح نقل کیا ہے : ؎
چلے عدمؔ اکیلے میں تو زندگی بولی
ہوئی تمام عمر اور بس جناب چل دیئے
اس کا پہلا مصرعہ بے وزن ہے‘ شاید یہ اصل میں اس طرح ہو :
چلے عدمؔ اکیلے میں تو زندگی یہ بول اٹھی
جناب سعد اللہ جان برق نے اپنے کالم ''زیرلب‘‘ میں ایک شعر اس طرح نقل کیا ہے ؎
بہر رنگے کہ خواہی جامہ پوش
من اندازِ قدت را می شناسم
پہلا مصرعہ بے وزن ہو گیا ہے‘ کیونکہ اصل میں وہ اس طرح سے ہے : ع
بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش
ندیم اسلم نے جناب ِ شہزاد احمد پر اپنے ایک مضمون میں مرحوم کا ایک شعر اس طرح نقل کیا ہے: ؎
اتنا بھی کب وقت تھا کہ پتوار تھام لیں
ایسی چلی ہوا کہ سفینے اُلٹ گئے
پہلا مصرعہ اصل میں اس طرح سے ہے : ع
اتنا بھی وقت کب تھا کہ پتوار تھام لیں
اور اب آخر میں ستیہ پال آنند کی یہ غزل:
بول کر سب کو سُنا اے ستیہ پال آنند بول
اپنی رامائن کتھا‘ اے ستیہ پال آنند بول
تُو کہ کامل تھا کبھی اب نصف سے کم رہ گیا
دیکھ اپنا آئینہ‘ اے ستیہ پال آنند بول
ایسے گم صُم مار مت کھا‘ اُٹھ کھڑا ہو‘ دے جواب
تان مُکہ‘ غل مچا‘ ستیہ پال آنند بول
کیا خموشی کی ردا اوڑھے ہوئے مر جائے گا؟
سیکھ لے اب بولنا‘ اے ستیہ پال آنند بول
شہر ہے سوداگروں کا اور تُو پتھر کا بُت
بول کر قیمت بتا‘ اے ستیہ پال آنند بول
ابنِ ملجم اب کوئی آنے نہ پائے اس جگہ
کربلا کو کر بلا اے ستیہ پال آنند بول
پڑھنے والوں کا اُجڈ پن اور نقادوں کی ڈینگ
تیری اب قیمت ہے کیا‘ اے ستیہ پال آنند بول
شعر کہنا سنگ برداری سے بڑھ کر کچھ نہیں
سیسی فس کوبھول جا اے ستیہ پال آنند بول
صرف مُردوں کو ہی ملتی ہے خموشی کی سزا
لب بکف ہو‘ ہاتھ اٹھا‘ اے ستیہ پال آنند بول
سب زبانوں پر ہیں پہرے‘ شہر اب خاموش ہے
گنگ ہے ساری فضا‘ اے ستیہ پال آنند بول
آج کا مطلع
ہیں کس طرح کے بام و در تو دکھاؤ
کسی دن ہمیں اپنا گھر تو دکھاؤ