بزدار میری ٹیم کا حصہ‘ وزیراعلیٰ رہیں گے: وزیر اعظم عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''بزدار میری ٹیم کا حصہ ہیں‘ وزیراعلیٰ رہیں گے‘‘ بلکہ یہ کہنا بھی کچھ غلط نہ ہوگا کہ ہم دونوں ایک ہی ٹیم کا حصہ ہیں ‘ اس لیے نہ میں ان کو چھوڑ سکتا ہوں اور نہ وہ مجھے‘ یعنی اگر جائیں گے تو اکٹھے ہی جائیں گے‘ اس لیے جب تک میں وزیراعظم ہوں‘ وہ وزیراعلیٰ رہیں گے ‘جبکہ جب تک وہ وزیر اعلیٰ ہیں‘ میں بھی وزیراعظم رہوں گا‘ اس لیے ان کے خلاف میرے کان بھرنے کی کوشش نہ کی جائے اور نہ ہی میرے خلاف ان کے کان بھرنے کی کوشش کی جائے‘ جبکہ ویسے بھی کانوں کو خالی ہی رہنا چاہیے‘ کیونکہ اگر انہیں بھر دیا جائے تو کچھ سنائی ہی نہیں دے گا؛ حتیٰ کہ حق میں لگائے گئے نعرے بھی سنائی نہیں دیں گے‘ چاہے وہ میرے حق میں ہوں‘ چاہے بزدار صاحب کے حق میں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں وزیر اعلیٰ پنجاب سے بریفنگ لے رہے تھے۔
قوم بہادر جوانوں کو کبھی نہیں بھولے گی: زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''قوم بہادر جوانوں کو کبھی نہیں بھولے گی‘‘ اور اسی طرح میری بہادری کو بھی یاد رکھا جائے گا ‘جس نے ایک سکیورٹی اہلکار کو نا صرف چھڑی دے ماری تھی‘ بلکہ اسے ایڈیٹ بھی کہہ دیا تھا؛ حالانکہ یہ کار ِسرکار میں کھلی مداخلت تھی ‘لیکن کسی نے چُوں تک نہیں کی؛ حالانکہ میرے خلاف ایف آئی آر کاٹی جا سکتی تھی‘ لیکن میری بہادری کی وجہ سے ایسا نہ کیا جا سکا‘ کیونکہ سب کو معلوم تھا کہ میں ایف آئی آر کاٹنے والے کو بھی دھو ڈالوں گا اور وہ جعلی اکاؤنٹس وغیرہ کی ایف آئی آر بھی اسی لیے کاٹ دی گئی تھی کہ لوگ میری بہادر سے واقف ہی نہیں تھے ‘جس کا مظاہرہ میں نے اگلے روز سکیورٹی اہلکار کو زدو کوب کر کے کیا تھا اور اسی لیے پیسوں کی واپسی کے لیے میری منت سماجت کی جا رہی ہے اور ساتھ ساتھ ڈرایا بھی جا رہا ہے کہ میں غصے میں آ کر کوئی جوتا وغیرہ ہی نہ نکال ماروں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پاکستانیوں سے کوئی آزادی چھین نہیں سکتا: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور نواز لیگ کے صدر میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستانیوں سے کوئی آزادی چھین نہیں سکتا‘‘ ماسوائے میری آزادی چھیننے کے‘ جبکہ میں اچھا بھلا پاکستانی ہوں اور ہم دونوں بھائی سب سے زیادہ پاکستانی ہونے کا ثبوت بھی دے چکے ہیں اور ملک کی خدمت بھی اتنی کی ہے کہ یہ رہتی دنیا تک یاد رہے گی‘ جبکہ میں نے تو ہر منصوبے میں اربوں روپے بچانے کا کئی بار اعلان بھی کیا؛ البتہ کبھی اس بات کی وضاحت نہیں کی اور نہ ہی کبھی اس بات کا ثبوت پیش کیا اور کئی بار چینج کر کے اپنا نام بھی تبدیل کرنے کا دعویٰ کیا‘ لیکن خدمت میں ہی اتنا مصروف رہا کہ نام تبدیل کرنے کا وقت ہی نہیں ملا ‘ورنہ اب تک میرے کم از کم تین چار سو نام ہوتے اور میرے ہر نئے نام کے ساتھ سابق شہباز شریف لکھا جاتا‘ لیکن یہ قوم اتنی معصوم ہے کہ سب کچھ جلد بھول جاتی ہے‘ جبکہ شرمسار ہونے والا میںبھی نہیں تھا۔آپ اگلے روز میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
درستی
اگلے روز میں نے اپنے کالم میں علامہ اقبالؔ کا یہ مصرعہ نقل کیا تھا ؛ع
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
اور‘ جو محل نظر بھی تھا ‘کیونکہ اس میں ''آپ ہی‘‘ فالتو ہے اور ایک طرح کی تکرار بھی کہ خودکشی جب آ گیا تو آپ ہی کہنے کی ضرورت نہیں تھی‘ جبکہ خودکشی آپ ہی کی جاتی ہے اور کوئی دوسرا نہیں کرواتا۔ یہ مصرعہ اس طرح بھی ہو سکتا تھا؛ ع
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے ایک دن خود کشی کرے گی
یا اس طرح سے بھی کہع
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے لازماً خود کشی کرے گی
نیز جناب سعد اللہ جان برق نے گزشتہ روز اپنے ایک کالم میں دو معروف اشعار اس طرح سے نقل کیے ہیں ؎
وے صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کو آنکھیں ترستیاں ہیں
ناوک انداز جدھر دیدہ جاناں ہوں گے
نیم بسمل کہیں ہوں گے کہیں بے جاں ہوں گے
پہلے شعر کا دوسرا مصرعہ دراصل اس طرح سے ہے :ع
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
اور دوسرے شعر کا دوسرا مصرع اس طرح ہے:ع
نیم بسمل کئی ہوں گے کئی بے جاں ہوں گے
اور اب آخر میں ابرارؔ احمد کی یہ نظم:
ایسا بھی کیا
نہیں کچھ نہیں‘ خیر ہے/ ایسا ہوتا ہے/ آنکھیں مناظر سے ہٹتی ہیں/ مرکز بدلتی ہیں/ اور رات دن جاگتی جو رہی ہیں/ انہیں نیند گھیرے میں لیتی ہے/ معدوم ہوتی ہوئی روشنی/ پھر کسے کھینچتی ہے/ کسی کو بھی دکھتا نہیں/ کیا ہوا تھا کبھی/ کیا رہا تھا کبھی/ مناظر کا کیا ہے/ ابھی سامنے ہیں/ ابھی اوٹ میں--- تسلسل ہے‘ جس کی کڑی ٹوٹتی ہے/ تو ہم چوٹ کھاکر پلٹتے ہیں/ اپنی طرف/ اور مٹی کی تاریکیوں میں بھٹکتے ہیں/ جب--- اور آنکھیں چمکتی/ نئی زندگی سے نمی جوڑتی/ آگے بڑھتی ہیں--- جن میں دبی مضطرب آگ ہو/ منزلوں کے ہیولے ہوں چاروں طرف/ ان کو بڑھنا تو ہے/ آگے جانا تو ہے---/ تو پھر یوں کرو/ اپنی گزری مسافت کے رستے گنو/ یاد کر کے انہیں/ جو درختوں کی صورت‘ تمہارے لیے/ راستوں میں رہے/ اور ڈھونڈو وہ آنکھیں/ کہ تم جن کے خوابوں کی اُنگلی پکڑ کر/ یہاں تک چلے/ خواب ہونے لگے---بیتی راتوں کا اک بے نہایت قرینہ ہے اندر ہی اندر/ بہت دُور تک/ نیند میں خوش خرامی کرو/ خود کلامی کرو/ خیر ہے‘ ایسا ہوتا ہے/ ہوتا رہے گا/ تو پھر یار‘ ایسا بھی کیا---!
آج کا مطلع
جو ہے انکار تو انکار سے بھی کچھ نہیں ہوتا
ہماری راہ کی دیوار سے بھی کچھ نہیں ہوتا