"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن‘ غربت کیسے مٹ سکتی ہے اور عامرؔ سہیل

ہماری ڈیل صرف عوام سے ہو گی: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''ہماری ڈیل صرف عوام سے ہو گی‘‘ یعنی عوام سے کہا جائے گا کہ چندہ وغیرہ اکٹھا کر کے حکومت کے متھے ماریں‘ تا کہ ہمارے قائدین کی گلو خلاصی ہو ‘جو فی الحقیقت عوام ہی کے قائد ہیں اور عوام کی خاطر دی گئی قربانیوں ہی کی وجہ سے زیر عتاب ہیں‘ کیونکہ عوام اگر آئے روز کے عائد کردہ ٹیکس ادا کر سکتے ہیں تو حکومت کو چند ارب روپے کیوں نہیں دے سکتے؟ چنانچہ عوام سے اپیل ہے کہ پلی بارگین کر کے اپنے قائدین کو سرخرو کرائیں ‘تا کہ وہ رہا ہو کر دوبارہ اپنے پیارے عوام کی خدمت پر کمر بستہ ہو جائیں ‘جو کہ ان کی گھٹی میں پڑی ہے‘ اگرچے ہمارے سمیت عوام کو یہ معلوم نہیں ہے کہ گھٹی کا آخر مطلب کیا ہے؟ تاہم محاوروں پر عمل کرنا بھی‘ چونکہ ہمارے قائدین کی عظیم روایات میں شامل ہے۔ آپ اگلے روز رانا ثناء اللہ کی پیشی کے بعد جوڈیشل کمپلیکس میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
منزل سرینگر نہیں‘ بھارت ہے‘ سومنات کا مندر گرائیں گے: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''ہماری منزل سری نگر نہیں‘ بھارت ہے‘ سومنات کا مندر گرائیں گے‘‘ اس لیے اپنی اصل منزل کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے فی الحال سری نگر کے حالات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ہمیں دلی کی طرف رخ کرنا چاہیے‘ کیونکہ سرینگر میں تو کشمیری خود ہی بھارتی فوج کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں اور دنیا پر ثابت کر دیں کہ چنے ناک سے بھی چبائے جا سکتے ہیں؛ اگرچے ناک کا اصل کام لکیریں نکالنا ہے‘ ناک پر بیٹھنے والی مکھی کو اُڑانا‘ اسے کٹوانا اور اس کی سیدھ میں چلنا وغیرہ ہے‘ لیکن محاورے بھی استعمال کرنے کیلئے بنائے گئے ہیں‘ جن پر عمل نہ کرنا ہماری قومی زبان کو کوئی خدمت نہیں‘ جبکہ ہماری جماعت اس بات کا خاص خیال رکھتی ہے اور ٹامک ٹوئیاں مارنا‘ ہوا میں تیر چلانا‘ ہوائی قلعے تعمیر کرنا‘ اُڑتی چڑیا کے پر گننا‘ بیٹھے بیٹھے مکھیاں مارنا وغیرہ‘ ناصرف ہماری لغت میں بطور خاص شامل ہیں‘ بلکہ ہم ان پر عمل بھی کرتے رہتے ہیں ‘بلکہ اسے اپنا شعار بھی بنا لیا ہوا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک تعزیتی ریفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
تنظیمات مدارس سے مذاکرات کا کھیل کھیلا جا رہا ہے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ '' تنظیمات مدارس سے مذاکرات کا کھیل کھیلا جارہا ہے‘‘ جبکہ میرے ساتھ مذاکرات کی اسے کبھی توفیق نہیں ہوئی؛ حالانکہ میرے حالات و مسائل اس کے سامنے ہیں۔ کنجوسی کی اس سے بڑی انتہا اور کیا ہو سکتی ہے‘ جبکہ مدارس کو پریشان کر کے حکومت میرے ملین مارچ وغیرہ کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہے‘ جن کے طلبہ ہی میری اصل طاقت ہیں‘ جن کے دم سے میری سیاست کا پھڑپھڑاتا ہوا چراغ روشن ہے؛ حالانکہ حکومت بلکہ خود وزیراعظم نے کہہ رکھا ہے کہ اپوزیشن کو دھرنے وغیرہ کیلئے نا صرف کنٹینر مہیا کریں گے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
غربت کیسے مٹ سکتی ہے؟
یہ محمد عبداللہ کی تصنیف ہے‘ جسے کلاسک نے چھاپا ہے اور جو ایک خواب اور ایک عملی منصوبے کی حیثیت رکھتی ہے۔ پہلی اور دوسری جلد کیلئے دیباچہ مصنف کا خود تحریر کردہ ہے‘ جبکہ آغاز میں مصنف کی تصویر اور مختصر تعارف درج کیا گیا ہے۔ کتاب کو مختلف عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جن میں پورے منصوبے کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں کہ غربت کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے۔ 383 صفحات پر مشتمل اس قابلِ قدر تصنیف میں وہ جملہ طریقے تفصیل سے بیان کر دیئے گئے ہیں‘ جن کے طفیل غربت کو خوشحالی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ کتاب کے آخر میں قاری کیلئے یہ مشورہ بھی شامل ہے کہ اگر آپ اس کتاب کو پڑھ چکے ہیں تو اسے دوبارہ پڑھا جائے‘ تا کہ اس کے اغراض و مقاصد اچھی طرح سمجھ میں آ سکیں۔ یہ ایک عملی منصوبہ ہے‘ جس پر عمل کر کے غربت سے نجات حاصل کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے‘ جبکہ یہ قاری کو مکمل طور پر قائل کرنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے؛ بشرطیکہ اس میں درج تجاویز کو سنجیدگی سے لیا جائے اور ان پر عمل بھی کیا جائے۔ ادارہ کلاسک کی طرف سے یہ کتاب حقیقتاً ایک تحفے کی حیثیت رکھتی ہے۔اور‘ اب آخر میں عامرؔ سہیل کی تازہ غزل:
شہر کے شہر کو ہمراہ لیے پھرتے ہیں
ہم ترے حسن سے تنخواہ لیے پھرتے ہیں
شہر جل سکتے ہیں‘ تم دیر نہ باہر پھرنا
سانس رک سکتی ہے‘ افواہ لیے پھرتے ہیں
ہم جو پتھر کے تمہیں لگتے ہیں‘ پتھر کے نہیں
خون میں درد کی درگاہ لیے پھرتے ہیں
گوشۂ چشم میں جو معجزے بھر سکتے تھے
ربّ عیسیٰ کی قسم کاہ لیے پھرتے ہیں
راہ میں مسجدیں آتی ہیں کہ مندر کہ کلس
اک پری زاد کو بے راہ لیے پھرتے ہیں
مورنی ہم ترے نخروں کو دعا دیتے تھے
اور اب ہم کو بھی بدخواہ لیے پھرتے ہیں
ہم تری دید تری دید کے خیراتی ہیں
کاسہ کاسہ جو شب ماہ لیے پھرتے ہیں
کیسا پانی سے ڈرے ہیں
نیند میں عالم ارواح لیے پھرتے ہیں
ہم پُجاری تھے ترے‘ ہم جو پجاری تھے ترے
اب محبت کی جگہ آہ لیے پھرتے ہیں
کشتیاں چھوڑ کے ملّاح لیے پھرتے ہیں
جیسے لاٹھی سے کوئی ہانک رہا ہو‘ عامرؔ
آج کا مطلع
دل کا یہ دشت ‘عرصۂ محشر لگا مجھے
میں کیا بلا ہوں‘ رات بہت ڈر لگا مجھے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں