زرداری کی کمر جھکی ہے‘ سر نہیں جھکے گا: قمر زمان کائرہ
پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''زرداری کی کمر جھکی ہے‘ سر نہیں جھکے گا‘‘ اگرچہ کمر جھک جائے تو سر اپنے آپ ہی جھک جاتا ہے‘ کیونکہ جھکی ہوئی کمر کے ساتھ سر اونچا ہو ہی نہیں سکتا اور اگر حکومت کسی طرح ان کی کمر سیدھی کر دے تو سر بھی اٹھ سکتا ہے اور جس کا امکان طریقہ محاورے کے مطابق کُبڑے کو لات مارنا ہی ہے‘ جبکہ لات بھی کُب پر مارنی چاہیے‘ کیونکہ یہ حاتم طائی کی قبر نہیں کہ اس کو جہاں بھی چاہیں لات مار دیں اور جس کا مطلب یہ ہے کہ حاتم طائی بھی کُبڑا تھا‘ جس کا کُب نکالنے کیلئے اس کی قبر پر لات مارنا ضروری ہو گیا تھا؛ اگرچہ تاریخ کی کتابوں میں اُس کے کُبڑا ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے ‘جبکہ کسی کی قبر پر لات مارنا ویسے بھی قبر کی بے حُرمتی ہی کرنے کے مترادف ہے اور حاتم طائی کو اس سے جو تکلیف پہنچی ہو گی‘ اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے‘ جبکہ ہمارے ملک میں ویسے بھی ہر کام اندازے کے مطابق ہی ہو رہا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں اخباری نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
نواز شریف کو نہیں‘ ڈیل کی ضرورت اُن کو ہے‘
جن سے عوامی دبائو برداشت نہیں ہو رہا: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے سینئر رہنما احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کو نہیں‘ ڈیل کی ضرورت اُن کو ہے ‘جن سے عوامی دبائو برداشت نہیں ہو رہا‘‘ جن میں میاں شہباز شریف سرفہرست ہیں‘ جنہوں نے نواز شریف اور مریم نواز کے پُر جوش بیانیے سے قطع نظر کر کے اپنا کمزور اور لاغر سا بیانیہ رائج کر دیا ہے اور جس نے نواز لیگ کو کہیں کا نہیں چھوڑا اور اسی کمزوری کی وجہ سے نواز شریف کو بھی افہام و تفہیم کی طرف مائل ہونا پڑا ہے اور جس کی ایک مزید وجہ یہ بھی ہے کہ شہباز شریف نو ڈیل کر کے ہمارے سینوں پر مونگ دلنے کیلئے باہر آ جائیں گے اور نواز شریف جیل میں ہی کڑھتے رہیں گے اور اس سے بڑھ کر عوامی دبائو اور کیا ہو سکتا ہے؟ اس لیے ہو سکتا ہے کہ نواز شریف کی ڈیل شہباز شر یف سے بھی پہلے ہو جائے‘ جبکہ نیک کام میں دیر ویسے بھی نہیں کرنی چاہیے؛ اگرچہ نواز لیگ پہلے ہی اتنی نیکیاں کر چکی ہے کہ اب اسے مزید کوئی نیکی کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں دیگر پارٹی رہنمائوں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
گرفتاری ہو یا نظر بندی‘ مارچ ملتوی نہیں ہوگا: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''گرفتاری ہو یا نظر بندی‘ مارچ ملتوی نہیں ہوگا‘‘ البتہ منسوخ ضرور ہو سکتا ہے‘ جبکہ پیپلز پارٹی نے شمولیت سے ویسے بھی صاف انکار کر دیا ہے اور نواز لیگ بھی ڈانواڈول ہی نظر آتا ہے اور اسی لیے میں نے گرفتاری یا نظر بندی کا اشارہ دے دیا ہے‘ تا کہ قدرے بھرم رہ جائے اور زیادہ افسوس مجھے برخوردار بلاول پر ہے جو صرف افطاری اچھی کروا سکتے ہیں‘ سیاست کی الف ب سے بھی ابھی واقف نہیں؛ حالانکہ کئی دفعہ انہیں پیشکش کر چکا ہوں کہ زیادہ تر میری صحبت میں بیٹھا کریں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
ایقان
یہ نعیم رضا بھٹی کا مجموعۂ غزلیات ہے‘ جسے انحراف پبلی کیشنز لاہور‘ اسلام آباد نے شائع کیا ہے۔ پس سرورق عارف امام کے قلم سے ہے۔ دیباچے ڈاکٹر خورشید رضوی اور فرذاد علی زیرک نے لکھے ہیں۔ اندرونی سرورق ڈاکٹر خضر نوشاہی‘ سید کاشف رضا اور منور دہلوی کی ستائشی آراء ہیں۔ چند شعر دیکھیے:
ہمیں دستک کی عادت ہی نہیں ہے
پلٹ آئیں گے اچھے دن ہمارے
چلنا ہی دُشوار ہُوا
رستہ جب ہموار ہُوا
اک حسینہ کی گھات میں رہ کر
اپنے نزدیک آ گیا ہوں میں
اب میں خود سے بھی بات کرتا نہیں
ایسی پٹّی مجھے پڑھائی گئی
اور‘ اب ضمیرؔ طالب کے یہ تازہ اشعار:
لکھا ہُوا ہے جو کچھ اور‘ اور ہے لیکن
وہ اور اور ہے جو کچھ دکھایا جا رہا ہے
میرے اندر اور کوئی رہتا ہے
میں تو اپنے باہر رہتا ہوں
میں اندر اندر ہی اُسے پُکارتا ہوں
وہ اندر اندر ہی مجھے سُن لیتا ہے
روشنی کی تصویر لگا رکھی ہے میں نے
میرے گھر سے اُجالا کیسے جا سکتا ہے
وہ جو برتن میں کبھی ڈالا ہی نہیں گیا تھا
وہ برتن سے کیسے نکالا جا سکتا ہے
میں ننگے پائوں بہت گھومتا رہا ہوں وہاں
تمہارے شہر کی مٹی میں ہے اثر میرا
تیری تدبیر تو کچھ خاص نہیں تھی ورنہ
پھنسنا خود میرے ارادے سے نکل آیا ہے
ہر کوئی تو مری مرضی کا نہیں
اور ہونا بھی نہیں چاہیے ہے
میں وہ سکوت ہوں جو ترے کام کا نہیں ہے
تُو ایسا شور ہے جو میں مچا نہیں سکتا
جسے رکّا نہیں میں نے بچا کر
وہی دولت مرے کام آ رہی ہے
آج کا مطلع
جب سے مولا علی کے گاؤں میں ہوں
چادرِ فاطمہ کی چھاؤں میں ہوں