چیئرمین کی تقرری پر قوم سے معافی مانگتا ہوں: شاہد خاقان عباسی
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''میں احتساب اداروں کے چیئرمین کی تقرری پر قوم سے معافی مانگتا ہوں‘‘ اگرچہ معافی مجھے ایل این جی اور دیگر معاملات پر مانگنی چاہیے تھی، تاہم یہ ایک اچھی ابتدا ہے اور جس کو بارش کا پہلا قطرہ ہی سمجھنا چاہیے اگرچہ ہمارے قائد نے صرف پیسے واپس کرنے کا عندیہ دیا ہے، معافی مانگنے سے صاف انکار کر دیا ہے اور حکومت کو بھی دراصل پیسوں کی ضرورت ہے، معافی تو اس کے کسی کام کی نہیں ہے اور حکومت کو دونوں پر اصرار نہیں کرنا چاہیے ، یا معافی منگوا لے یا پیسے وصول کر لے جبکہ میں نے اس کی مثال بھی قائم کر دی ہے اور حکومت کو میری بھی معافی ہی پر اکتفا کرنا چاہیے کیونکہ محاورہ بھی یہی ہے کہ چپڑی ہوئی اور دو دو، حالانکہ چپڑی ہوئی ایک روٹی بھی کافی ہونی چاہیے یا جیسے ٹوسٹ ایسے کا مطالبہ کرنا جس پر دونوں طرف مکھن لگا ہوا ہو، چنانچہ حکومت کو اگر ایک طرف مکھن لگا ٹوسٹ مل رہا ہے تو اس کو غنیمت سمجھنا چاہیے جبکہ لالچ تو ویسے ہی بُری بلا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
جتنی مرضی گرفتاریاں کر لیں، ہمارے ورکر شیر ہیں: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اور نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''جتنی مرضی گرفتاریاں کرلیں۔ ہمارے ورکر شیر ہیں‘‘ اور جب سے ہماری حکومت ختم ہوئی ہے، یہ شیر گوشت کی بجائے گھاس وغیرہ پر ہی گزارہ کر رہے ہیں اس لیے دہاڑنے کی بجائے ڈکرانے بلکہ ممیانے جوگے ہی رہ گئے ہیں، اس لیے اگر حکومت انہیں گرفتار کرتی ہے تو ان کے لیے اسے گھاس کا بھی وافر انتظام کرنا ہوگا، یا انہیں پیرول پر رہا کر دیا کرے تاکہ وہ ادھر اُدھر سے گھاس چر کر اپنا پیٹ بھر لیں،وہ گوشت کا ذائقہ ہی بھول چکے‘ چنانچہ جب سے ہمارے یہ شیر ویجی ٹیرین ہوئے ہیں، ہمیں ان کے کھانے پینے کی کوئی فکر نہیں ہوتی، ادھر اُدھر سے گھاس چر کے پیٹ بھر لیتے ہیں جبکہ ہماری طرح کچھ وہ کفایت شعار بھی ہو گئے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
حکومت مالی بحران کے بعد اب آئینی بحران پیدا کر رہی ہے: کائرہ
پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''حکومت مالی بحران کے بعد اب آئینی بحران پیدا کر رہی ہے‘‘ اور آئین کا بہانہ بنا کر کراچی کو اپنے کنٹرول میں کرنے کی فکر میں ہے اور اس بہانے کراچی کا کچرا صاف کرنا چاہتی ہے جو سرا سر ہمارے خلاف ایک سازش ہے کیونکہ ہم تو کچرے میں نت نئے اضافے کے خواہش مند ہیں اور میئر کی اسی ناکامی پر ہی ہماری سیاست کا دارو مدار ہے‘ کیونکہ اگر میئر کی کوششوں سے کراچی صاف ہو گیا تو سارے ووٹ ایم کیو ایم لے جائے گی اور ہم دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ جائیں گے جبکہ اب کراچی میں کچرے پر ہی کسی جماعت کے جیتنے اور ہارنے کا امکان ہے جبکہ حکومت اتنا بھی خیال نہیں کر رہی کہ ہم فارورڈ بلاک کی مصیبت سے بھی دوچار ہیں جس سے بچنے کے لیے ہمارے چیئرمین اِدھر اُدھر بھاگے پھر رہے ہیں جو کہ دراصل حکومت ہی کی شرارت ہے اور اوپر سے جعلی اکاؤنٹس کے مقدمات کا پہاڑ بھی سر پر کھڑا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
مارچ میں شرکت کیلئے نواز شریف کا خط نہیں ملا:شہباز شریف
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ'' فضل الرحمن کے مارچ میں شرکت کے لیے نواز شریف کا خط نہیںملا‘‘ اور یہ سارا ڈاکخانے والوں کا قصور ہے جو پنجاب حکومت کی طرح کوئی کام نہیں کر رہے اور جو حکومت ڈاکخانے صحیح طرح نہ چلا سکے اسے ملک پر حکومت کرنے کا کیا حق ہے ۔ حالانکہ اسے چاہیے کہ ہمارے خاندانی اثاثوں کا کھوج لگانے کی بجائے ڈاکخانوں کے نظام کو ٹھیک کرے اور پتہ نہیں وہ کتنا ضروری خط تھا جو مجھے لکھا گیا تھا اور جو مجھے نہیںملا‘ جبکہ اس طرح میرے پیارے عوام کو بھی کتنے خط نہیں ملے ہوں گے جبکہ ہمارے وقتوں میں تو ڈاکخانے کتنی پھرتی دکھاتے تھے کہ زید کا خط بکر کو اور بکر کا خط زید کو پہنچا دیتے تھے جس سے زید اور بکر دونوں کا بھلا ہو جاتا تھا جس طرح ہمارے دور میں کسی خطے کے پیسے کسی اور خطے کے منصوبوں پر لگا دئیے جاتے تھے اور اس طرح دونوں کا بھلا ہو جاتا تھا جیسا کہ خطہ ٔ لاہور کی مثال سب کے سامنے ہے۔ آپ اگلے روز روزنامہ دنیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور، اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
ساتھ چل کر بیچ میں چھوڑا نہیں کرتے
خاندانی لوگ تو ایسا نہیں کرتے
ایک ادھوری سی محبت ہم نے کی، وہ بھی
ورنہ لوگ اس دہر میں کیا کیا نہیں کرتے
ہم بُرے تھے، ہم سے اچھائی کی کیا امید
آپ اچھے ہوکے بھی اچھا نہیں کرتے
سامنے آ جائیں گے پھر سے کسی دن آپ
اس لیے ہم آپ کا پیچھا نہیں کرتے
پھر پشیمانی نہ ہو قطعٔ تعلق پر
کچھ نہ کچھ رہنے بھی دیں، سارا نہیں کرتے
عشق میں امداد حاضر ہے ہماری بھی
کام بھاری ہے، اسے تنہا نہیں کرتے
چل پڑو تو دھیان سارا سامنے ہو بس
مُڑ کے پیچھے کی طرف دیکھا نہیں کرتے
رکھتے ہیں امید بھی تھوڑی بہت، لیکن
اس طرح سے دشت کو دریا نہیں کرتے
جنگ لڑتے ہیں محبت کی، ظفر، جم کر
ہار بھی جائیں تو واویلا نہیں کرتے
آج کا مطلع:
کچھ بھولو، کچھ یاد رہو
شاد رہو، آباد رہو