جنہیں سر کا تاج بنانا چاہیے‘ وہ جیل میں ہیں: شہباز شریف
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''جنہیں سر کا تاج بنانا چاہیے‘ وہ جیل میں ہیں‘‘ اس لیے ضروری ہے کہ سزا یافتہ جب جیل سے باہر آئیں تو انہیں سر آنکھوں بٹھایا جائے‘ تاکہ وہ دوبارہ سر کا تاج بننے کیلئے وہی کام شروع کر دیں‘ جس کی پاداش میں وہ اندر ہوئے تھے اور میں چونکہ خود بھی سر کا تاج بننا چاہتے ہوں‘ اس لیے مجھے بھی جلد از جلد اس مرحلے سے گزارا جائے‘ ورنہ مجھے بھوت کی طرح سر پر سوار ہونا پڑے گا اور یاد رہے کہ میں لاتوں کا بھوت ہوں‘ اس لیے مجھے باتوں سے بھلانے یا قائل کرنے کی کوشش نہ کی جائے ‘ ورنہ مجھ سے بُرا کوئی نہ ہوگا‘ اور پھر یہ بھی طے کرنا ضروری ہے کہ سر پر تاج رکھنے کی میعاد کتنی ہوگی؟ ورنہ یہ نہ ہو کہ یہ تاج بھائی صاحب ہی کے سر پر پڑا رہے اور میری باری ہی نہ آئے یا اس وقت تک مجھے اندر ہی رکھا جائے ‘جب تک اُن کی میعاد پوری نہیں ہوتی اور میں اندر ہی پڑا پڑا بوڑھا ہو جاؤں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت ‘ مولانافضل الرحمن کے اسلام آباد پہنچنے سے
پہلے راہ راست پر آ جائے: خواجہ سعد رفیق
سابق وفاقی وزیر ریلوے نے کہا ہے کہ حکومت‘ مولانا فضل الرحمن کے اسلام آباد پہنچنے سے پہلے پہلے راہ راست پر آ جائے‘‘ اور کم از کم دھرنے سے پہلے ہی آ جائے‘ تاکہ میں حکومت کے راہ راست پر آنے کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں۔ اول تو فضل الرحمن ابھی راستے میں ہی ہوں گے اور حکومت راہ راست پر آ جائے گی ‘کیونکہ ان کی دہشت ہی اتنی ہے کہ کوئی ان کے آگے ٹھہر ہی نہیں سکتا اور اس لیے پیپلز پارٹی اور ہم نے بھی ان کے ساتھ آنا ضروری نہیں سمجھا کہ اس معمولی سے کام کیلئے وہ اکیلے ہی کافی ہیں اور جس جوانمردی سے وہ الیکشن میں ہارے تھے‘ اس کی دھاک سب پر ایسے بیٹھی ہوئی ہے کہ اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتی ۔آپ اگلے روز عدالتی کارروائی کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
غروبِ قلب
یہ سہیل ثانی کا مجموعہ کلام ہے ‘جسے زربفت پبلی کیشنز ‘لاہور نے چھاپا ہے۔ اس کا انتساب والدین کے نام ہے‘ دیباچہ ہمارے دوست اور ممتاز شاعر غلام حسین ساجد نے ‘جبکہ پس سرورق باقی احمد پوری اور ڈاکٹر مسعود علی بیگ نے تحریر کیے ہیں۔ کچھ اشعار دیکھیے:
اس کو مدت ہوئی بنے لیکن
اس عمارت کا نم نہیں نکلا
دھڑکا ہے ترے نام پہ جس دن سے مرا دل
مجھ کو مرے ہوئے کا یقیں ہونے لگا ہے
ہوا ظاہر ترے نقشِ قدم سے
یہاں بھی زندگی آئی گئی ہے
تُم میں اُڑنے کا حوصلہ ہے اگر
ہم تمہیں آسمان دے دیں گے
کہاں وہ سست پیماں رہ گیا ہے
میرے دل کو سُبک رفتار کر کے
سہیل ثانی کو جدید اُردو غزل پڑھنے اور جدید طرزِ احساس سے آشنا ہونے کی ضرورت ہے ۔ورنہ وہ گزارے موافق شاعری کی حد تک ہی رہ جائے گا‘ جبکہ اس میں آگے بڑھنے کی توانائی موجود ہے۔
اور‘ اب آخر میں ابرار احمد کی نظم:
اُن آنکھوں سے بہنا ہے ہمیں!(علی افتخار جعفری کیلئے)
ہم آئے تھے/ کچھ سہمے‘ کچھ گھبرائے ہوئے‘ کچھ شانت‘ کہیں سے دُکھتے ہوئے/ امید وبیم کے سایوں میں/ سہمے‘ سمٹے‘ بھرائے ہوئے/ بے داغ سفید لباسوں والے/ مشفق چہروں‘ کومل ہاتھوں/ اور امید سے بھری ہوئی/ آنکھوں کے دلاسے‘ ڈھارس پر/ ہم دُکھن سے چلتے آئے تھے/ ہم تھکن میں لپٹے آئے تھے/ کچھ زخموں کو سیلنا تھا کہیں/ کچھ ٹیسیں مدھم ہونا تھیں/ کچھ گھاؤ ہمارے بھرنے تھے/ کچھ رنگوں کو لوٹ آنا تھا/ اس مجبوری‘ لاچاری سے/ آخر کو نکلنا تھا‘ ہم کو/ اور واپس لوٹ کے جانا تھا
پر ایسا کہاں ہو پاتا ہے/ اور سدا کہاں ہو پایا ہے/ ہم اپنی الجھی سانسوں میں محصور ہوئے/ ہم دھوپ سے/ پھول سے چہروں سے/ اور باغِ تمنا کی خوشبو سے دُور ہوئے/ امید بھری اُن آنکھوں کے/ بہلاوے ماند پڑے آخر/ اب ہر دم سوکھتی مٹی پر/ ان دیکھے خوابوں کے آنسو/ ہر لحظہ گرتے رہتے ہیں/ کہیں موت کے پہرے میں سوئے/ اُمید کے بستر پر جاگے/ ہر آنے جانے والوں کا/ اب ‘رستہ تکتے رہتے ہیں
ان پہیوں والی کرسی پر/ ان لوہے کے دروازوں میں/ ہم پل پل تھکتے جاتے تھے‘ جو ہم کو نہیں سننا ہے ابھی/ آواز وہی اپنی جانب/ اب ہم کو بلاتی رہتی ہے/ جس گھاٹ نہیں لگنا ہے ہمیں/ یہ کشتی ٔجاں/ اُس سمت کو بہتی جاتی ہے
یہ دُھند ذرا چھٹ جائے ‘اگر/ یہ پردہ کہیں ہٹ جائے ‘اگر/ یہ بند دریچے کھل جائیں/ پھر چلنے لگے ہوا شاید/ کوئی آنسو کام آ جائیں کہیں/ شاید ہو قبول دُعا کوئی/ ان چاروں طرف سے بڑھتی ہوئی/ دیواروں میں دم گھٹتا/ دل گھبراتا ہے/ کھڑکیاں کھولو/ ہٹ جاؤ/ یہ روشنی اندر آنے دو/ ہمیں پھر سے ہنسنے رونے دو/ ہمیں گانے دو/ ہمیں جانے دو/ ہمیں کام ابھی کچھ کرنے کو/ جو بچپن ہم سے دُور ہوا/ ان گلیوں میں پھرنا ہے ہمیں/ جو بند ہوئے آخر ہم پر/ ان دروازوں سے/ ہم کو لپٹ کر رونا ہے/ جس شور نے توڑ دیا ہم کو/ اُس شور میں پھر رہنا ہے‘ ہمیں/ جو ہم کو اچھے لگتے تھے/ اُن لوگوں سے ملنا ہے‘ ہمیں/ تو ہم سے ملا کرتے تھے جہاں/ اس راہ پہ پھر جانا ہے‘ ہمیں/ جن آنکھوں کے ہم تارے تھے/ اُن آنکھوں سے بہنا ہے ہمیں!
آج کا مقطع
کسی کے دل میں جگہ مل گئی ہے تھوڑی سی
سو‘ کچھ دنوں سے ظفرؔ‘ گوشہ گیر ہو گئے ہیں