عوام موجودہ حکومت سے تنگ آ چکے ہیں: نواز شریف
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''عوام موجودہ حکومت سے تنگ آ چکے ہیں‘‘ جبکہ عوام ہماری حکومت سے نہیں بلکہ ہمارے کاموں کی وجہ سے تنگ آئے ہوئے تھے، حالانکہ ان کا عوام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ وہ تو ہمیں خوشحال ہوتا دیکھ کر خوش ہو رہے تھے کیونکہ وہ خود بھی خوش حال ہونا چاہتے تھے لیکن اپنی نا سمجھی کی وجہ سے نہ تو کک بیکس لے سکتے تھے نہ کمیشن اور نہ ہی پیسہ باہر بھجوا سکتے تھے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ رہی کہ پیسہ ان کے پاس تھا ہی نہیں ؛چنانچہ وہ راضی برضا ہو گئے تھے اور انہوں نے ہماری خوش حالیوں پر ہی خوش ہونا سیکھ لیا تھا جبکہ یہ بہت جلد سیکھ بھی جاتے ہیں جیسا کہ انہوں نے صبر کرنا سیکھ لیا تھا لیکن ہم صبر کی اس نعمت سے سراسر محروم تھے کیونکہ خوش حالی ایک ایسی چیز ہے کہ اس سے صبر آتا ہی نہیں ہے۔ بہت کوشش کرنے پر بھی، ہیں جی؟ آپ اگلے روز جیل میں میاں شہباز شریف سے ملاقات کر رہے تھے۔
عوام کو مصنوعی مہنگائی کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''عوام کو مصنوعی مہنگائی کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے‘‘ اس لیے ہم اصلی مہنگائی کا انتظام کر رہے ہیں تا کہ انہیں اس کے رحم و کرم پر چھوڑا جا سکے اور اب اس کے آنے میں کوئی خاص دیر بھی نہیں ہے کیونکہ پٹرول وغیرہ کی قیمتیں ایک بار پھر بڑھانی پڑیں گی اور آئی ایم ایف کے نئے تقاضوں کے مطابق ٹیکس بھی تھوک کے حساب سے لگانا ہوں گے۔ہمارے ذمے صرف حکومت کرنا ہے جو بذات خود کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ ہر روز دس دس افسروں کو تبدیل کرنا اور پھر ان میں سے کچھ کو بحال کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور پھر اب تو ایک اور میٹنگ بھی کرنا پڑ رہی ہے یعنی ایڈوائزروں اور ترجمانوں کی چھٹی کرانا اور نئے حضرات کا انتخاب کرنا آسان نہیں ہے۔ آپ اگلے روز طیب حفیظ چیمہ کی والدہ کی وفات پر تعزیت کر رہے تھے۔
سندھ کو نقصان پہنچا تو وفاق کو بھی پہنچے گا: مراد علی شاہ
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ''سندھ کو نقصان پہنچا تو وفاق بھی نہیں بچے گا‘‘ جبکہ میری گرفتاری کی تیاریاں سندھ کو نقصان پہنچانے ہی کے لیے کی جا رہی ہیں اور اس لیے ہمارے سپیکر کو بھی اندر کیا گیا ہے لیکن میں گرفتاری سے نہیں ڈرتا کیونکہ سپیکر صاحب نے اگر پوری اسمبلی کو اپنے لیے سب جیل قرار دے رکھا ہے تو میں پورے صوبے ہی کو سب جیل قرار دے کر ہر طرف گھومتا پھروں گا حالانکہ زرداری صاحب کو ہی اندر کرنے پر اکتفا کرنا چاہئے تھا کیونکہ ہاتھی کے پائوں میں ہی سب کا پائوں ہوتا ہے، مجھ غریب کو اندر کر کے انہیں کیا حاصل ہوگا کیونکہ پیسے تو زرداری نے واپس کرنے ہیں نہ کسی اور نے کیونکہ یہ صاف ڈاکہ زنی ہے اور یہ جمہوریت کا زمانہ ہے اور جمہوریت میں وہی کام کیے جاتے ہیں جن کی اس سسٹم میں گنجائش اور افادیت ہوتی ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ایک دن کی واپسی
کوئی ایک ماہ کے بعد فارم ہائوس میں ایک دن کے لیے واپس آیا ہوں تو گھاس، پیڑوں ‘پودوں اور پرندوں کو دیکھ کر جی خوش ہوا ہے۔ سٹرس کے پھل اپنے پورے سائز تک تقریباً پہنچ چکے ہیں، اگلے ماہ زردی اختیار کرنا شروع کریں گے۔ ماڈل ٹائون کے اپنے مزے ہیں لیکن وہاں چڑیوں کا نام و نشان تک نظر نہیں آیا۔ دو لالیاں اور تین چار کووّں کے علاوہ وہاں چڑیا نام کی کوئی چیز نہیں تھی البتہ وہاں ایک فاختہ سے ملاقات ضرور ہو گئی جو یہاں ناپید ہے۔ اس کے علاوہ کوئی تین سو گز لمبی دیوار مکمل طور پر بیل سے ڈھکی ہوئی ہے جس کا انگریزی نام تو کوئی اور ہوگا۔ یہاں لوگ اسے سہرا بیل کہتے ہیں۔ یہ امر بیل کی طرح پیڑ کا خون تو نہیں چوستی لیکن اپنے وزن سے اسے بے حال ضرور کیے رکھتی ہے۔ پھر ماڈل ٹائون کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہاں درخت بے شمار ہیں۔
اور اب آخر میں کچھ ضمیر طالب ہو جائے:
ہم کہ پاتے ہیں قدر اور کہیں
چاہیے ہم کو مگر اور کہیں
لی دوا اور کہیں کی خاطر
اور ہوا جا کے اثر اور کہیں
ہم کہیں اور ہیں شمشیر بکف
جنگ جاری ہے مگر اور کہیں
ہوئی تھیں اور کہیں برساتیں
اور زمیں ہو گئی تر اور کہیں
دن ہی نکلا ہے یہاں پر خالی
ہوئی ہے جا کے سحر اور کہیں
دھیان جاتا ہے کہیں اور، مگر
جا کے ٹکتی ہے نظر اور کہیں
میرے ہٹ جانے سے بھی اے میرے دوست
تُو نہیں مسند نشیں ہو پائے گا
درکار ترے خواب کو اب نیند ہے جتنی
اتنا سا تو سو لیتے ہیں ہم جاگے ہوئے بھی
کرنی ہے ملاقات تو پھر کھل کے کرو دوست
اتنا تو ملا کرتے ہیں ہم بچھڑے ہوئے بھی
میرے کہنے کو باقی کچھ بچتا نہیں ضمیرؔ
میرے حصے کی باتیں بھی وہ خود کر دیتا ہے
آج کا مقطع
اُن کا برتائو ہی بُرا ہے، ظفرؔ
ورنہ وہ آدمی تو اچھے ہیں