"ZIC" (space) message & send to 7575

ملے جُلے اشتہار اور عامرؔ سہیل کی تازہ غزل

تلاش ِگمشدہ
برخورداربھگوڑے خاں‘ جب سے تم اپنی ماں کا زیور چُرا کر گھر سے بھاگے ہو‘ وہ ڈنڈا پکڑ کر دروازے پر بیٹھی ہوئی ہے‘ اس لیے اگر اپنی خیریت چاہتے ہو تو بھُول کر بھی اِدھر کا رخ نہ کرنا ‘ورنہ اپنی سلامتی کے تم خود ذمہ دار ہوگے۔ اوّل تو تمہاری اطلاع کسی جیل خانے سے خود ہی آ جائے گی‘ کیونکہ یہ زیورات نقلی ہیں اور انہیں بیچنے کے لیے جونہی تم کسی صراف کے پاس جائو گے‘ اس نے تمہیں پکڑوا دینا ہے‘ تاہم مجھ سے یہ امید نہ رکھنا کہ میں تمہاری ضمانت کروا دوں گا‘ کیونکہ وکیل حضرات ایک تو مہنگے بہت ہیں اور دوسرے اس قدر ہتھ چھُٹ واقع ہوئے ہیں کہ آئے دن کسی پولیس والے کو زخمی کر دیتے ہیں یا کسی جج پر تشدد کرتے نظر آتے ہیں‘ جبکہ تمہاری والدہ ماجدہ سے مار کھا کھا کر مزید مار کھانے کی اب مجھ میں ہمت نہیں رہی۔ بہر حال‘ بیٹا! جہاں رہو‘ خوش رہو اور میرے لیے دعا کرتے رہنا کہ اس چنڈال عورت سے کسی صورت میری خلاصی ہو سکے‘ ورنہ میں بھی بہت جلدگھر سے بھاگنے کا ارادہ رکھتا ہوں‘ لیکن کوئی ایسی چیز دستیاب نہیں ہو رہی‘ جسے چرا کر بھاگ سکوں۔ (فقط تمہارا غمزدہ باپ: پکوڑے خاں)
انتقالِ پرُ ملال
ہر ماہ بذریعہ اشتہارِ ہذا اعلان کیا جاتا ہے کہ تین چار روز پہلے میرے جس ماموں کا گرمی لگنے سے انتقال ہوا تھا اور جنازے میں شرکت اور منہ دیکھنے کیلئے جن بیرون ملکی رشتے داروں کے انتظار میں ان کی میت سرد خانے میں رکھوا دی گئی تھی۔ آج تجہیز و تکفین کیلئے انہیں لینے کے لیے گئے تو وہ ناصرف سردی سے لطف اندوز ہو رہے تھے‘ بلکہ برف توڑ توڑ کر کھا بھی رہے تھے؛ چنانچہ طوعاً و کرہاً انہیں گھر واپس لے آئے ہیں اور ان کی رسم چالیسواں کے لیے جن حضرات کو دعوتی رقعے ارسال کیے گئے تھے‘ انہیں منسوخ سمجھا جائے اور ان کے دوبارہ انتقال کا انتظار کیا جائے ‘کیونکہ گرمی کا بھی وہی عالم ہے اور لوڈ شیڈنگ کا بھی‘ تاہم اب فوتیدگی کی صورت میں انہیں سرد خانے میں رکھوانے کی غلطی ہرگز نہیں کی جائے گی۔(المشتہر: غمزدہ بھانجا متوفی غیر مرحوم‘ چوہدری مغموم ‘لاہور)
اپنا بیگ لے جائیں
مشتہر کو اگلے روز سڑک پر پڑا ہوا جو بیگ ملا ہے‘ وہ جس صاحب کا بھی ہو آ کر لے جائیں۔ بیگ‘ چونکہ خستہ حالت میں ہے‘ اس لیے مشتہر کے کسی کام کا نہیں ہے‘ نیز اس کے اندر جو تین سو روپے تھے‘ وہ مشتہر نے حق الخدمت کے طور پر رکھ لیے ہیں‘ کیونکہ جب سے بیگ ہذا مجھے ملا ہے‘ میں دل و جان سے اس کی حفاظت کر رہا ہوں اور اس امانت کو جلد از جلد لوٹانا چاہتا ہوں‘ جس کی وجہ سے ذہن پر بہت بوجھ محسوس کرتا ہوں کہ اس فرض سے جلد از جلد سبکدوش ہو جائوں۔ اس کے اندر کچھ کاغذات مثلاً بجلی اور پانی کے بل اور کسی لڑکی کے محبت نامے ہیں ‘جنہیں میں اخلاقی طور پر واپس کرنا ضروری سمجھتا ہوں‘ جبکہ ان کی حفاظت کا حق الخدمت علیحدہ ہوگا ۔بصورتِ دیگر لڑکی کے لواحقین کو بھی اطلاع دی جا سکتی ہے اور جس سے مالک ِبیگ کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں‘ یعنی تھانے میں چھترول بھی ہو سکتی ہے‘ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ (المشتہر: مرزا دیانتداربیگ‘ گوجرانوالہ)
ضرورت رشتہ
ایک چندے آفتاب‘ چندے ماہتاب لڑکی کے لیے مناسب رشتہ درکار ہے۔ موصوفہ کی یہ چوتھی شادی ہوگی‘ کیونکہ پچھلی تین شادیوں کے بعد وہ سسرالی گھر سے زیورات وغیرہ چرا کر فرار ہو چکی ‘ لیکن اب اس نے اس کام سے توبہ کر لی ہے اور اس طرح کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی‘کیونکہ اللہ میاں کے ہاں توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے‘ جس میں سے بخوبی آیا جایا جا سکتا ہے۔ اگر کسی کو یقین نہ آ رہا ہو تو بیشک آزما کر دیکھ لے‘ یعنی ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ اس سے یاد آیا کہ چرائے ہوئے کنگن وغیرہ ابھی تک اس کے پاس ہیں اور اسے مزید ایسی واردات کی ضرورت نہیں ہے‘ تاہم بیروزگار دولہے اس کے ذریعے اب بھی اپنی قسمت سنوار سکتے ہیں ‘جبکہ وفادار اتنی ہے کہ بھاگنے کے بعد ہر بار واپس گھر آ جاتی ہے۔ ضرورتمند حضرات توجہ فرمائیں‘ پہلے آئو‘ پہلے پائو۔ دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔ اس سنہری موقعہ کو ہاتھ سے جانے نہ دیں‘ کیونکہ ایسے مواقع زندگی میں بار بار نہیں آتے‘ دولہا کے لیے ذات پات یا عمر کی کوئی قید نہیں‘ کیونکہ اللہ میاں نے ایسی شرطوں سے منع فرمایا ہے‘ نیز جوڑے آسمان پر ہی بنتے ہیں‘ اللہ مبارک کرے! (فون نمبر 0000007 پر رابطہ فرمائیں)
اور‘ اب آخر میںعامر ؔسہیل کی ایک تازہ غزل:
فرض نمازوں جیسی ہو
یار کے رازوں جیسی ہو
جیسی بھی ہو مجھ میں تُم
گھُپ آوازوں جیسی ہو
مرچو مرچ محبت سی
میٹھے سازوں جیسی ہو
انگڑائی انگڑائی چُور
نخروں‘ رازوں جیسی ہو
عُمر کا درزی سیوے کیا
خُود مقراضوں جیسی ہو
نیند کبھی اور سیندھ کبھی 
زلفوں غازوں جیسی ہو
کب پہنچو گی آنکھوں میں
دُور درازوں جیسی ہو
نرم ہو برف کے گالوں سی
گرم محاذوں جیسی ہو
حُسن کی سرحد پار کرو
دراندازوں جیسی ہو
آج کا مقطع
جب کوچ کر گئے تو یہ جانو گے تب ظفرؔ
یہ شہر تھا بس ایک ہمی سے بھرا ہوا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں