"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘متن‘ درستی اور ڈاکٹر تحسین فراقی کی غزل

سیاسی لوگوں کو گرفتار کر کے آواز کو دبایا نہیں جا سکتا: بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''سیاسی لوگوں کو گرفتار کر کے آواز کو دبایا نہیں جا سکتا‘‘ کیونکہ سیاست ایک کاروبار ہے اور کاروبار میں صرف منافع پر نظر ہوتی ہے اور جو پیسہ الیکشن وغیرہ پر خرچ کیا ہوتا ہے‘ وہ صحیح معنوں میں سرمایہ کاری ہوتی ہے اور سرمایہ کاری جس مقصد کیلئے کی جاتی ہے‘ اس کے بارے میں کوئی دورآراء نہیں اور سیاستدانوں کو پکڑنے کا مطلب یہ ہے کہ کاروبار میں کھلی مداخلت ہو رہی ہے ‘جو سراسر غیر آئینی حرکت ہے‘ کیونکہ سیاستدان لاکھوں‘ کروڑوں خرچ کر کے اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں‘ یہ خرچہ کہاں سے پورا کرنا ہوتا ہے‘ جبکہ اگلے الیکشن کے لیے بھی کچھ جوڑ جمع کرنا ہوتا ہے‘ جبکہ حکومت کی طرف سے یہ رویہ غیر منطقی اور غیر مناسب ہے اور اگر یہ جاری رہا تو سیاست کا یہ کاروبارختم ہو کر رہ جائے گا ۔ آپ اگلے روز سکھر میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
لوگ نواز شریف کے لیے جلد گھروں سے نکلیں گے: احسن اقبال
سابق وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے سیکرٹری جنرل چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''لوگ نواز شریف کے لیے جلد گھروں سے نکلیں گے‘‘ کیونکہ جو کچھ نواز شریف نے ان کے ساتھ کیا ہے‘ اس کا بدلہ وہ جیل جا کر نہیں لے سکتے ‘کیونکہ انہیں جیل میں کسی نے گھُسنے ہی نہیں دینا‘ جبکہ وہ پہلے بھی کئی بار ڈنڈے سوٹے لے کر جیل پر حملہ آور ہوئے ہیں‘ لیکن ایک تو جیل کا دروازہ بہت مضبوط ہے اور دوسرے اس کی دیواریں بہت اونچی ہیں‘ اس لیے اب وہ اپنے عظیم مقصد کیلئے سڑکوں پر نکلیں گے ‘تا کہ وہ اس میں کامیابی حاصل کر سکیں؛ چنانچہ وہ چاہتے ہیں کہ نواز شریف کو صرف ایک دن کیلئے باہر نکال دیا جائے‘ تاکہ وہ اپنا سارا غصہ نکال سکیں ‘کیونکہ انہوں نے یہ بھی سن رکھا ہے کہ ڈیل بھی ہونے کو ہے ‘جس کے بعد نواز شریف کسی غیر ملک کو رفو چکر ہو جائیں گے اور اپنا کلیجہ ٹھنڈا کرنے کیلئے انہیں بھی اتنا لمبا سفر کرنا پڑے گا؛ حالانکہ وہ اپنا سارا غصہ شہباز شریف اور دیگر معززین پر بھی نکال سکتے ہیں‘ جوکہ یہاں رہ جائیں گے اور جن کی ڈیل بھی نہیں ہو سکے گی‘ لیکن ان لوگوں کو یہ بات کون سمجھائے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
حکومت‘ انتقام لینے کی بجائے معیشت کو مستحکم کرے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''حکومت ‘ انتقام لینے کی بجائے معیشت کو مستحکم کرے‘‘ کیونکہ اگر ہم نے پیسے واپس کر بھی دیئے تو جو اس کا حال ہم نے کر دیا ہے‘ معیشت پھر بھی مستحکم نہیں ہوگی۔ اول تو پیسے واپس کرنے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا‘ کیونکہ یہ گوشت کا ناخن سے جدا ہونے والا معاملہ ہے‘ نیز سیاست تو ہماری ختم ہو ہی چکی‘ اگر یہ جمع پونجی بھی واپس کر دیں تو کھائیں گے کہاں سے؟علاوہ ازیں جو آرام و آسائش جیل کے اندر دستیاب ہے‘ اس کے بعد کسی کا دماغ خراب ہے‘ جو وہ پیسے بھی واپس کر دے‘ جبکہ وہاں گھر سے زیادہ سہولیات موجود ہیں اور ہر ہٹا کٹا شریف آدمی جیل جاتے ہی بیمار پڑ جاتا ہے ‘جہاں ہسپتال کی عیاشی الگ سے موجود ہے‘ جبکہ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ حکومت ہم سے کس بات کا انتقام لے رہی ہے؟ کیونکہ ہم نے تو اسے کبھی کچھ نہیں کہا اور اپنے کام میں لگے رہے ‘جس میں ہمیں خاطر خواہ جانکاری حاصل تھی ۔ آپ اگلے روز وزیراعظم آزاد کشمیر سے ملاقات کر رہے تھے۔
درستی
آج ایک صاحب نے اپنے کالم میں معروف شاعر جناب منور رانا کا شعر اس طرح نقل کیا ہے : ؎
اک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے
تم نے نہیں دیکھا آنسو کا سمندر
اس کے دونوں مصرعے خارج از وزن ہیں۔ پہلے مصرعہ میں ''اِک‘‘ کی بجائے ''ایک‘‘ ہونا چاہیے تھا ‘تا کہ اس کا وزن پورا ہو جاتا؛ البتہ دوسرے مصرعے کے ساتھ تو کھلواڑ ہی ہوا ہے اور مصرعے کو باقاعدہ پیرافریز کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ کچھ اس طرح بھی ہو سکتا تھا ع
آنسوئوں کا نہیں دیکھا ہے سمندر تم نے
میں تو دوستی کا یہ کام ثواب سمجھ کر کرتا ہوں‘ لیکن شکر گزار ہونے کی بجائے بعض حضرات نے باقاعدہ شکایت کا راستہ اختیار کیا ہے اور جس کا ازالہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ میں کالم نگار کا نام لیے بغیر اس فرض سے عہدہ برأ ہوتا رہوں‘ کیونکہ درستی شعر کی مطلوب ہوتی ہے‘ کالم نگار کی نہیں۔ محبی ڈاکٹر تحسین فراقی اگلے روز تشریف لائے تھے‘ ہماری درخواست پر جو غزل انہوں نے سنائی ‘پیش خدمت ہے:
کب تک اس زہر کی تلخی کو گوارا کیا جائے
چارہ گر‘ کچھ تو مرے درد کا چارہ کیا جائے
اے تلون زدہ دل اب تری مرضی کیا ہے
سنگ کو موم کیا‘ موم کو خارا کیا جائے
یا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیں اس شہر کو ہم
یا بہر طور اسی مقتل میں گزارا کیا جائے
یا نئے لینز لگا کر کریں نظارۂ حسن
یا اسی کم بصری ہی سے نظارا کیا جائے
لطمۂ موج سے ہر روز ڈراتا ہے مجھے
یہی بہتر ہے کہ ساحل سے کنارا کیا جائے
''جو کسی کو بھی ہمارا نہیں ہونے دیتا‘‘
لازم آیا اُسے فی الفور ہمارا کیا جائے
میں بہت دن یہاں ہرگز نہیں رہنے والا
چند ہفتوں کے لیے مجھ کو گوارا کیا جائے
بارِ اوّل ہی اٹھائی وہ ہزیمت کہ نہ پوچھ
کیسے ممکن ہے کہ اب عشق دوبارہ کیا جائے
تیرے ہونے سے یہ دن کتنے حسیں لگتے تھے
اب ترے بعد میاں کس کو سہارا کیا جائے
آج کا مقطع
کوئی ایک بات کچھ اس طرح کی بھی ہے‘ ظفرؔ
جو کسی بھی سطح کی گفتگو کے علاوہ ہے

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں