عمران خان نے کشمیر کا مقدمہ صحیح طریقے سے نہیں لڑا: بلاول بھٹو
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''عمران خان نے کشمیر کا مقدمہ صحیح طریقے سے نہیں لڑا‘‘ جیسا والد صاحب نے 22 سال تک لڑا تھا اور بالآخر کامیاب ہوئے تھے اور اب یہ جعلی اکائونٹس والا کیس بھی‘ اسی طرح لڑیں گے‘ کیونکہ اگر ثبوت ہی ادھر اُدھر کر دیئے جائیں تو آدمی مقدمہ کیسے ہار سکتا ہے؟ اگرچہ اس کیس کا معاملہ ذرا مختلف ہے‘ کیونکہ اس میں کئی مبینہ وعدہ معاف گواہ بھی بن گئے ہیں اور بے نامی جائیدادیں بھی بے شمار پکڑی گئی ہیں اور کچھ فرنٹ مینوں کے خلاف بھی انتقامی کارروائی کی گئی ہے‘ لیکن اگر وہ خدانخواستہ سزا یاب بھی ہو گئے تو ہم اسے سرخروئی ہی کہیں گے‘ جیسا کہ نواز لیگ والے مقدمہ ہار کر بھی سرخرو ہو جاتے ہیں‘ تاہم حکومت خاطر جمع رکھے‘ واپسی ایک پیسے کی بھی نہیں ہوگی ‘کیونکہ جیل سے زیادہ آرام دہ تو گھر بھی نہیں ہے‘ اسی لیے وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ میں جیل سے نہیں ڈرتا اور جیل میرا دوسرا گھر ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک ٹوئٹر پیغام نشر کر رہے تھے۔
انسانیت کے لیے دہشت گردی کیخلاف
متحد ہونے کی ضرورت ہے: نریندر مودی
بھارئی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ ''انسانیت کے لیے دہشت گردی کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے‘‘ جبکہ انسانیت کے لیے سب سے بڑا مظاہرہ خاکسار نے کشمیر میں کر رکھا ہے ‘جہاں انسانوں کو حیوانوں سے بھی بدتر حالت میں رکھا گیا ہے‘ کیونکہ ہمارے منشور کے مطابق ‘جو ہندو نہیں ہے‘ وہ انسانیت سے باہر ہو جاتا ہے اور وہاں کرفیو بھی اس لیے نافذ کیا گیا ہے کہ کشمیری بھوک سے ہی اگلے جہان کو سدھار جائیں‘ کیونکہ ہم ان کے قتل ِ عام سے اپنے ہاتھ نہیں رنگنا چاہتے ہیں‘ تاہم جو لوگ ہماری فوج کے ہاتھوں قتل وغیرہ ہو رہے ہیں ‘انہیں ایک طرح سے نجات ہی فراہم کی جا رہی ہے‘ کیونکہ بھوک اور بیماری سے مرنا ایک طرح سے سسک سسک کر اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنا ہے‘ جو ہمیں پسند نہیں ہے اور رام نے چاہا تو رفتہ رفتہ یہ سبھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے ‘جبکہ ان کی جگہ بھارت سے کافی لوگوں کو یہاں آباد کیا جا رہا ہے‘ تا کہ اگر کبھی ریفرنڈم کی بھی نوبت آ جائے‘ تو ووٹ ڈالنے والے صرف ہندو ہی ہوں گے۔ آپ اگلے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کر رہے تھے۔
حکومت خاموش رہی تو چکوٹھی کی طرف مارچ کریں گے: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''اگر حکومت خاموش رہی تو چکوٹھی کی طرف مارچ کریں گے‘‘ تاہم چکوٹھی کی طرف مارچ کرنے کا مطلب چکوٹھی تک ہی محدود سمجھا جائے‘ اس سے آگے جانے کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا‘ جس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ ''آ بیل مجھے مار‘‘ جبکہ بیل سے مار کھانا ویسے بھی کوئی اچھی بات نہیں اور ہم اس گاڑی کے بیل بھی نہیں ہیں‘ جبکہ ویسے بھی چکوٹھی تک جانے کا ہمارا مقصد دشمن کو بددعائیں دینا ہی ہے اور یاد رہے کہ ہماری بد دعا ویسے بھی بہت کارگر ہوتی ہے؛ اگرچہ ہماری دعاؤں میں کوئی اثر باقی نہیں رہ گیا ہے‘ ورنہ کوئی الیکشن جیت کر حکومت ہی کر رہے ہوتے‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہماری ہتھیلی پر اقتدار کی کوئی لکیر ہی نہیں‘ تاہم اپنے طور پر اپنے ہاتھ پر یہ لکیر کھدوانے کی کئی بار کوشش کر چکے ہیں‘ لیکن ہاتھ زخمی کرنے کے علاوہ کچھ بھی حاصل وصول نہیں ہوا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
درستی
آج کے اخبار میں ایک محترم کالم نویس صاحب نے شاعر مشرق علامہ اقبالؔ کا شعر اس طرح درج کیا ہے ؎
تُو نے کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو اک راز تھا سینۂ کائنات میں
اس شعر کے دونوں مصرعے بے وزن ہیں‘ کیونکہ پہلا مصرعہ اس طرح سے ہے: ع
تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا
اور دوسرا مصرعہ اس طرح سے ہے : ع
میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں
اپنا یہ شعر اس طرح درج دیکھ کر علامہ اقبالؔ کی روح یقینا خوش نہیں ہوئی ہوگی۔ بہتر ہے کہ کالم نگار خواتین و حضرات جو شعر درج کرنا چاہتے ہوں‘ احتیاطاً کسی کو دکھا لیا کریں ‘کیونکہ شعر کالم کو سجانے کیلئے درج کیا جاتا ہے‘ اس کا حلیہ بگاڑنے کے لیے نہیں۔
اور‘ اب آخر میں ابرار احمد کی نظم:
ہر جانب دیواریں ہیں
ہم ہو آئے ہیں‘ اُس بستی سے/ جس کی کوئی سرحد ہی نہیں ہے/ اُس دنیا میں گھوم آئے ہیں/ جس میں قیام کی قید نہیں ہے/ جس میں مقام کی قید نہیں ہے/ مٹی کی نمناک مہک میں/ خود رو جھاڑیوں/ خار دار سڑکوں پہ اُترتی/ رات کی چُپ میں/ مُٹھی میں/ کچھ کھلتے/ مسلے پھول چھپائے/ لوٹ آئے ہیں/ دھندلی روشنیوں کی خنک خموشی میں/اک ادھ کھلے دریچے سے/ رہ تکتی آنکھوں/ ہلتے ہاتھوں/ آنسو بکھراتے بادل/ اور کانپتے ہونٹوں کی شاخوں پر/ پنچھی کے گیتوں کی پکڑ سے
سانس چھڑا کر لوٹ آئے ہیں/ خود کو رُلا کر لوٹ آئے ہیں/ کاہشِ وصل/ اور ساعتِ ہجراں سے/ عیش ِفراغت/ قریۂ شب سے/ تابِ طلب سے/ خواب بچاکر لوٹ آئے ہیں!
لوٹے ہیں تو ہر جانب دیواریں ہیں/ جو خود ہی گرائی تھیں‘ ہم نے/ جو خود ہی اُٹھائی ہیں ‘ہم نے!!
آج کا مقطع
اک فصیلِ کفر تھی گھیرے ہوئے مجھ کو ظفرؔ
اور اُس دیوار میں محراب تھے چاروں طرف