مقبوضہ کشمیر پر حکومت اور اپوزیشن
چٹان کی طرح متحد ہیں: شہباز شریف
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''مقبوضہ کشمیر پر حکومت اور اپوزیشن چٹان کی طرح متحد ہیں‘‘ لیکن یہ چٹان کافی بھربھری ہو گئی ہے‘ کیونکہ ایک طرف کشمیر کا مسئلہ چل رہا ہے اور دوسری طرف انتقامی کارروائیاں ہو رہی ہیں؛ حالانکہ یہ کام مسئلہ کشمیر حل ہونے کے بعد بھی کیا جا سکتا ہے اور اگر پکڑ جاری رہتی ہے تو کیا یہ لوگ جیل حوالات سے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں گے اور اوپر سے ان غریبوں کی جائیدادیں اور بینک اکاؤنٹس تک ضبط کیے جا رہے ہیں اور اتنے صدمات پہنچا کر آپ ان حضرات سے متحد ہونے کی کیا توقع رکھ سکتے ہیں؛ چنانچہ اب بھی حکومت کو چاہیے کہ جو سیاسی لیڈر جیلوں میں ہیں ‘انہیں رہا کرے اور گرفتاریاں بھی مکمل طور پر ملتوی کرے‘ تاکہ اس چٹان کے مضبوط ہونے کی کوئی صورت پیدا ہو سکے‘ کیونکہ جتنا ان معززین کو پریشان کر لیا گیا ہے‘ وہ کافی ہے‘ لہٰذا بات کا بتنگڑ بنانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ‘کیونکہ روپیہ پیسہ تو ہاتھ کا میل ہے اور سکندر اعظم کا قصہ بھی آپ نے سن ہی رکھا ہوگا کہ سب کچھ یہیں پڑا رہ جائے گا‘ جائیدادیں بھی اور بینک اکاؤنٹس بھی۔ آپ اگلے روز لاہور میں دیگر مسلم لیگی رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
وزیر اعظم کشمیر کو اپنی پی آر کیلئے استعمال نہ کریں: بلاول بھٹو زرداری
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم کشمیر کو اپنی پی آر کے لیے استعمال نہ کریں‘‘ کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ سارا سٹیج انہوں نے اپنی مقبولیت ہی کے لیے بنایا تھا اور ساری دنیا میں مشہور ہو گئے اور کسی نے اس بات پر دھیان نہ دیا کہ یہ کیسے وزیراعظم ہیں اور ہم تو انہیں وزیراعظم تسلیم ہی نہیں کرتے اور اس سے بڑی زیادتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک ایساآدمی خواہ مخواہ ساری دنیا میں مشہو ہو جائے‘ کیونکہ کشمیر کا تو بہانہ ہی تھا‘ ان کا اصل مقصد پی آر تھا اور ظلم یہ ہے کہ اب ہم جیسوں کے لیے اتنا مشہور ہونے کی گنجائش ہی بہت کم رہ گئی ہے ؛اگرچہ اللہ میاں کا بڑا کرم ہے کہ والد صاحب کی بدولت ‘میں بھی کافی مشہور ہو چکا ہوں ‘مگر اتنا نہیں‘ بلکہ بیرون ملک جہاں جہاں ہماری جائیدادیں اور اثاثے ہیں‘ وہاں تک تو ماشاء اللہ ہماری شہرت پھیلی ہوئی ہے؛ البتہ اگر جعلی اکاؤنٹس کیس میں والد صاحب کے ساتھ میں بھی پانچ دس سال کے لیے اندر ہو جاتا ہوں تو انشاء اللہ میری شہرت کو بھی پَر لگ جائیں گے۔ آپ اگلے روز سیہون شریف میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
راستوں پر گھاس لمبی ہو گئی
ظہور احمد میرے بچوں کے ساتھ گورنمنٹ کالج میں پڑھتے رہے ہیں‘ تب سے ان کے ساتھ محبت کا ایک رشتہ قائم ہے۔ کالج میگزین ''راوی‘‘ میں ان دنوں ان کی ایک غزل شائع ہوئی تھی ‘جس پر میں نے پورا ایک کالم لکھ مارا تھا۔ اگلے روز ملنے کے لئے آئے تو نئی کتاب کا مسودہ میرے پاس چھوڑ گئے کہ اسے ذرا دیکھ لوں۔ اس میں غزلوں کے ساتھ نظمیں بھی ہیں۔ چند منظومات پنجابی میں بھی ہیں‘ بلکہ اردو غزلوں میں بھی جابجا پنجابی الفاظ اور لہجوں کی آمیزش خوبصورتی سے کی گئی ہے۔ آغاز نعتوں‘ حمدوں اور سلام سے کیا گیا ہے۔ غزلوں میں سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:؎
جہاں جس کام سے بھیجیں انہیں‘ یہ اس گلی سے ہوتے جاتے ہیں
بھلے سادے بنے پھرتے رہیں ان عاشقوں کو راستہ معلوم ہوتا ہے
آتی ہے یاد سمتِ شمال و جنوب سے
چلتی ہے روز شام کو ہلکی سی اک ہوا
سب کو لگے کہ جیسے مخاطب انہیں سے ہے
رکھتا ہے ایسے روئے سخن سر بسر کھلا
تعزیت ہے شکستنِ دل کی
وہ بھی شامل ہے غمگساروں میں
کبھی کبھی تو اسے یاد بھی نہیں کرتے
کبھی کبھی تو اسے بھول کر پکارتے ہیں
دیدنی تھی شگفتگی دمِ مرگ
مسکرایا پلٹ کے قاتل بھی
اور اب عامرؔ سہیل کی تازہ غزل:
چاند تنہائی میں کھلتی ہوئی بوتل تو نہیں
اور بوتل کے نشے میں تری پائل تو نہیں
ٹوٹی انگڑائی کا احسان جتانے والی
وہ مرے پیار میں پاگل ہے وہ پاگل تو نہیں
آج وہ ایسے ہنسی پینگ پڑی پانی میں
مغلئی پاؤں میں اور گاؤں میں جل تھل تو نہیں
بارشوں میں بھی محبت سے شرابور ہے وہ
اُس کے رُک سیک بیگ میں بادل تو نہیں
سانس لیتا ہے اندھیرا بھی گلابی پن میں
سیپیا آنکھ بھڑکتی ہوئی مشعل تو نہیں
مجھ کو ڈر لگتا ہے اُس لڑکی کی تنہائی سے
اس اماوس کے کٹہرے میں وہ کاجل تو نہیں
سینچی جاتی ہے اور کھینچتی جاتی ہے مجھے
تیری آواز خداؤں سی مسلسل تو نہیں
آس تقسیم ہوئی پیاس میں ترمیم ہوئی
ہونٹ ہونٹوں سے بچھڑتی ہوئی چھاگل تو نہیں
حسن اشراق کرو‘ چال کو بیباک کرو
دُور سے دیکھ کے گھبرانا کوئی حل تو نہیں
دم بخود ایسی کہ خود کہتی ہے مجھ سے عامرؔ
وہ مرے بعد مرے بعد مکمل تو نہیں
آج کا مقطع
اس سے پہلے کہ کوئی کھینچ لے اس کو آ کر
میں نے سیڑھی سے ظفرؔ خود ہی اُتر جانا ہے