"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن اور ابرار احمد کی نظم

مارچ روکا گیا تو مولی گاجر کی طرح کاٹ دیں گے: اکرم درانی
خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی رہنما اکرم درانی نے کہا ہے کہ ''مارچ روکا گیا تو مولی گاجر کی طرح کاٹ دیں گے‘‘ جس کے لئے ہم نے کافی پریکٹس کر لی ہے اور کاٹنے کے ساتھ ساتھ کافی گاجریں کھائی بھی ہیں جس کی پاداش میںمجھ سے حساب مانگا جا رہا ہے ‘حالانکہ گاجریں تو ہوتی ہی کھانے کے لیے ہیں البتہ زیادہ کھانے سے پیٹ درد بھی ہو سکتا ہے جس میں کچھ عرصے سے مبتلا بھی ہوں اور کسی اچھی پھکی کی تلاش میں ہوں، تاہم مناسب یہی ہے کہ کچی کھانے کے بجائے گاجر کا حلوہ بنا کر کھایا جائے لیکن ہم لوگ سُوجی کے حلوے کے علاوہ کوئی اور حلوہ پسند ہی نہیں کرتے اور امید ہے کہ دھرنے کے دوران حکومت نے جس حلوے کا وعدہ کیا ہے وہ سوجی ہی کا ہوگا اور ہمارے شرکا کی زیادہ تعداد اسی حلوے کے منتظر حضرات پر منحصر ہوگی۔ آپ اگلے روز پشاور اسمبلی میں ایک نکتہ اعتراض پر گفتگو کر رہے تھے۔
مولانا اشارے پر ہوئے تو حمایت واپس لے لیں گے: بلاول
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''مولانا کسی قوت کے اشارے پر ہوئے تو حمایت واپس لے لیں گے‘‘ اور اگر واقعی ایسا ہے تو اس قوت کو کچھ توجہ ہماری طرف بھی دینی چاہیے جو مختلف قسم کے رولوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور اگر یہ کوئی مذہبی قوت ہے تو ہم اس سے کسی مجرب تعویذ کے بھی طلبگار ہوں گے اگرچہ والد صاحب خود بھی کافی پہنچے ہوئے بزرگ ہیں اور جملہ فرنٹ مین انہی کے تعویذ دھاگے پر چل رہے ہیں بلکہ اس کے کچھ سبق مجھے بھی دینا شروع کر دیئے ہیں اور آزمائشی طور پر تعویذ دھاگہ میں نے بھی شروع کر دیا ہے جو تیر بہدف ثابت ہو رہا ہے اور زیادہ تر ضرورت مند خواتین و حضرات میرے پاس ہی آ رہے ہیں کیونکہ جب سے والد صاحب جیل گئے ہیں، ان کی حاجت روائی میں ہی کر رہا ہوں جبکہ ہمارا مشن ہی نوع انسانی کی بہتری ہے جو اگرچہ ہم اپنے سابقہ دور سے لے کر اب تک کافی حد تک کر چکے ہیں لیکن یہ تو جتنی بھی کی جائے، کم ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
میڈیا ٹیم مولانا کا اصل چہرہ سامنے لائے: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''میڈیا ٹیم مولانا کا اصل چہرہ سامنے لائے‘‘ کیونکہ اگر ہمارا اصل چہرہ اتنی جلدی عوام کے سامنے آ چکا ہے تو مولانا کس کھیت کی مولی ہیں، اگرچہ مولانا کا اصل چہرہ شروع سے ہی عوام کے سامنے ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کے اصل چہرے بھی ایک سے زیادہ ہیں جبکہ ہم اپنے ایک ہی اصل چہرے پر گزارہ کر رہے ہیں، تاہم، ہو سکتا ہے کہ ہمارے اصل چہرے بھی اس کے علاوہ کئی اور ہوں جو آہستہ آہستہ خود ہی عوام کے سامنے آتے جائیں گے جبکہ مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے عوام کا اپنا اصل چہرہ بھی کافی حد تک سامنے آ گیا ہے اور جوں جوں مہنگائی اور بیروزگاری بڑھتی رہے گی توں توں عوام کے باقی اصل چہرے بھی سامنے آتے جائیں گے اور یہی وہ اصل تبدیلی ہے جس کا میں نے وعدہ کر رکھا تھا اور جس سے میں سرخرو ہو رہا ہوں اور دنیا جانتی ہے کہ میں نے اپنی کامیابیوں پر کبھی غرور نہیں کیا کیونکہ میں منکسر المزاج آدمی ہوں اور ہر کامیابی اسی عاجزی سے سمیٹ لیتا ہوں۔ آپ اگلے روز گوجرانوالہ کے ارکان قومی اسمبلی سے ملاقات کر رہے تھے۔
حکومت کو گھر بھیجنے کیلئے مولانا کے ساتھ ہیں: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''حکومت کو گھر بھیجنے اور انتخابات کے لئے مولانا کے ساتھ ہیں‘‘ جبکہ مجھے میرے قائد نے جماعت کی نمائندگی کے لئے نامزد کر دیا ہے اور میں اس کے لئے تیار بھی ہوں لیکن حکومت کے تیور کچھ اچھے نظر نہیں آتے کیونکہ اس نے شرکا کو حلوہ کھلانے کا اعلان کر رکھا ہے، ہمیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ اس حلوے کی نوعیت کیا ہوگی‘ میں تو بوڑھا آدمی ہوں، یہ حلوہ کھانے کی تاب ہی نہیں لا سکتا جبکہ مولانا کی خاطر زخمی ہونے کا بھلا ہمیں کیا فائدہ ہوگا، ماسوائے اس کے کہ ایسی مداخلت ہو جائے جس کے بعد احتساب ادارے کا شکنجہ اور سخت ہو جائے گا ۔ اس لئے اس گناہِ بے لذت کی مجھے تو کوئی تُک نظر نہیں آتی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور، اب ابرار احمد کی یہ نظم:
کچھ نہیں ہے کہیں
نہیں، کچھ نہیں ہے کہیں/ کوئی میں ہوں نہ تو/ اب نہ آزار ہے، آرزو بھی نہیں/ خاکِ امروز سے/ شہرِ نوروز تک/ بس دھواں ہے دھواں/ جس میں آنکھیں سُلگتی ہیں، تکتی نہیں/ دُھول اُڑتی ہے ہر سُو/ یہاں سے وہاں تک.../ مگر... کوئی بارش سی تھی/ اُن دنوں میں کبھی/ کوئی مہکار تھی/ کہ آنکھوں کی تہہ میں اترتی ہوئی نیند تھی/ اور خوابِ تمنا کی کروٹ سے/ ہلچل تھی/ بستر کی شکنوں میں تھی۔۔۔ روشنی تھی کہیں/ جس میں رستہ دکھائی بھی دیتا تھا/ چلتا بھی تھا/ کوئی دالان تھا/ پھول مہکے ہوئے، رنگ بہکے ہوئے تھے کبھی/ مہرباں رُخ سے جھڑتے ہوئے پھول/ قدموں میں گرتے ہوئے.../ ہر طرف دل میں گرہیں لگاتی/ ہوا چل رہی تھی/
اب نہ ہاتھوں کی گرمی، نہ دل کی تپش۔۔۔/ ابرِ اندیشہ چھایا ہوا ہے/ برسنے کو ہے/ اور مٹی پکڑتی ہے/ پاتال کی سمت کھینچے چلی جا رہی ہے۔۔۔/ آرزو کے ہر اک لفظ پر/ اور موجود و رفتہ کے رُخ پر/ غبارِ نفی بن کے چھاتی چلی جا رہی ہے
سفر کیا ہوا/ یہ دماغ اب کسے ہے؟/ اب تو ہم کو پہنچنا ہے اُس حد تلک/ جس کی حد ہی نہیں/ اس مکانِ ابد تک/ جو، کسی کا نہیں ہے؟
اور طے یہ ہوا/ کچھ نہیں، کچھ نہیں ہے مرا/ میرے اطراف میں/ خواب کو دیکھ لیتا ہوں/ اب خواب میں...
آج کا مقطع:
میں اگر اُس کی طرف دیکھ رہا ہوں تو، ظفر
اپنے حصے کی محبت کے لیے دیکھتا ہوں

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں