"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘متن اور افضل راجپوت کی نظم

اب تو جیل میں نیند بھی آنے لگی ہے: سعد رفیق
سابق وزیر ریلوے اور نواز لیگ کے اہم رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''اب تو جیل میں نیند بھی آنے لگی ہے‘‘ کیونکہ اب فرد ِجرم عائد ہونے کی امید بھی پیدا ہو گئی ہے اور جلدی ہی فیصلہ بھی ہو سکتا ہے‘ جس کے بعد جیل میں موجیں ہی موجیں ہوں گی! ائیر کنڈیشنز‘ ٹی وی‘ اخبارات اور طرح طرح کے کھانے ان پر مستزاد‘ جبکہ ہمارے محترم قائد بھی اسی لیے جیل سے نکلنے کے خلاف ہیں کہ عیاشیاں بھی ہو رہی ہیں اور حکومت کا بے تحاشا خرچہ بھی‘ جو پہلے ہی فقری ہو چکی ہے‘ اس لیے میں ان دیگر معززین سے بھی یہی عرض کروں گا کہ جلد از جلد فیصلہ کروانے کی کوشش کریں‘ یہ زمینی جنت آپ کا بے صبری سے انتظار کر رہی ہے ‘کیونکہ ایسا آرام اور سکون تو گھر میں بھی میسر نہیں ہے اور مجھے یقین ہے کہ جیل مینوئل تیار کرتے والا یقینا بہشت کا حقدار ہوگا ‘جو زمین پر ہی یہ بہشت قائم کر دی ہے۔ آپ اگلے روز احتساب عدالت سے باہر میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کر رہے تھے۔
27 اکتوبر سے پہلے حکومت مستعفی ہو سکتی ہے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''27 اکتوبر سے پہلے حکومت مستعفی ہو سکتی ہے‘‘ اور یہ میرے لیے ایک گرانقدر تحفے کی حیثیت رکھے گی ‘کیونکہ چندے کی جمع شدہ ساری کی ساری رقم مالِ غنیمت میں تبدیل ہو جائے گی‘ کیونکہ پھر مارچ کی ضرورت ہی نہیں رہے گی کہ دراصل اس طرح حکومت ہماری مالی امداد ہی کر رہی ہوگی‘ جس کے ہم مستحق چلے آ رہے ہیں اور اگر حکومت کے استعفے کے بعد مجھے وزیراعظم بنا دیا جائے تو میں کشمیر کا مسئلہ آن کی آن میں حل کر دوں گا‘ جبکہ کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی کے زمانے میں بھی ایسا ہونے ہی والا تھا کہ میری ویسے ہی چھُٹی کرا دی گئی‘ نیز اگر حکومت میری دھمکی پر ہی مستعفی ہو سکتی ‘ تو میں وزیراعظم کیوں نہیں بن سکتا‘ جبکہ دونوں بڑی پارٹیاں مارچ میں شامل ہونے سے انکار کر کے اس حق سے محروم ہو چکی ہیں‘ نیز شرکائے مارچ جو کپڑے اور لوٹے وغیرہ ہمراہ لائیں گے‘ وہ بھی میرے پاس جمع کرا دیں‘ تا کہ میرے پاس یادگار رہ جائیں۔ آپ اگلے روز پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
جیلوں سے ڈر کر عوامی حقوق کی جنگ سے
دستبردار نہیں ہوں گے: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اور نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''جیلوں سے ڈر کر عوامی حقوق کی جنگ سے دستبردار نہیں ہو سکتے‘‘ جو نواز شریف کی شکل میں مجسم ہو چکے ہیں‘ جن کا مقصد عوام کو ان کی املاک سے آزاد کرنا تھا‘ جو حقیقی طور پر باعثِ فساد ہوتی ہیں اور خود یہ مصیبت انہوں نے اپنے سرے لی تھی اور جیل سے ان کی رہائی کے بعد وہ سارے حقوق خود بخود بحال ہو جائیں گے‘ کیونکہ اگر پاکستان کرکٹ کی چیمپئن ٹیم سری لنکا کی بے بی ٹیم سے ہار سکتی ہے تو نواز شریف کیوں رہا نہیں ہو سکتے‘ جبکہ در حقیقت وہ رہا ہونا بھی نہیں چاہتے‘ کیونکہ اب وہ رفتہ رفتہ آلو شورے کے بھی عادی ہو گئے ہیں اور یہ ان کے منہ کو ایسا لگا ہے کہ ہریسہ‘ سری پائے اور سیخ کباب وغیرہ کی طرف دیکھتے تک نہیں‘ تاہم اگر حکومت کو مولانا کے مارچ اور کائونٹ ڈائون سے گھبرا کر مستعفی ہونا پڑا تو وہ طوعاً و کرہاً جیل سے باہر آنے کو تیار ہو جائیں گے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت تین ماہ کی مہمان‘ الٹی گنتی شروع ہو گئی ہے: اویس نورانی
جمعیت علمائے پاکستان کے سیکرٹری جنرل صاحبزادہ شاہ محمد اویس نورانی نے کہا ہے کہ ''حکومت تین ماہ کی مہمان‘ الٹی گنتی شروع ہو گئی ہے‘‘ کیونکہ سیدھی گنتی سے حکومت کا کچھ نہیں بگاڑا جان سکتا ‘جبکہ مولانا صاحب اور ان کے دیگر ساتھیوں کے اندر ہونے سے جو بہت بڑا خلا پیدا ہو جائے گا ‘اسے ہم نے ہی پر ُکرنا ہے؛اگرچہ ہماری حیثیت بھی ایک خلا ہی کی ہے‘ لیکن ایک خلا کو ایک بڑا خلا ہی پر کر سکتا ہے‘ جبکہ ان لوگوں کے منظر سے ہٹنے کے بعد ہی ہمارے نمودار ہونے کی کوئی صورت پیدا ہو سکتی ہے‘ جبکہ ہمارے اور حکومت کے درمیان معاملہ فہمی کی بھی کوئی صورت پیدا ہو سکتی ہے‘ تاہم اگر یہ الٹی گنتی سینکڑوں اور ہزاروں کی صورت میں ہوئی تو تین ماہ سے زیادہ بھی انتظار کیا جا سکتا ہے‘ جبکہ ہمیں ویسے بھی انتظار کی کافی عادت پڑی ہوئی ہے؛ اگرچہ اس کا نتیجہ وغیرہ کچھ نہیں نکلا کرتا ‘جس میں محصور سراسر نتیجے کا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔
اور اب آخر میں افضل راجپوت کی نظم:
اِک دروازہ
اِک دروازہ کولوں لنگھدیاں / اج وی قدم کھلو رہندے نیں / دل اندر ای ہس پیندا اے / نین اندر ای رو پیندے نیں/ اِک دروازے اُتے پاٹیاں/ ہوئیاں دو تصویراں نیں/ اِک دروازے اُتے لمکیاں ہوئیاں دو زنجیراں نیں/ زنجیراں دے حلقے سانوں/ اپنے وچ کھبو لیندے نیں/ اِک دروازے کولوں لنگھدیاں/ اِک دروازے پچھے کوئی/ جادو گرنی رہندی سی/ چُپ کر کے موہ لینا جگ نوں/ مُونہوں حرف نہ کہندی سی/ اسماناں دیاں سیلاں کر کے/ آن دلاں تے لہندی سی/ اوہدیاں یاداں آ لے گجرے/ سُنجے ہتھ پرو لیندے نیں/ اِک دروازے کولوں لنگھدیاں/ اِک دروازے آلیاں جھیتاں/ جنت آلی باری نیں/ اِک دروازے اُتوں ساڈیاں/ جاناں صدقے واری نیں/ اِک دروازے دے صدقے ای/ ساڈیاں ساہواں جاری نیں/ خاب دے پنچھی پیاسیاں چُنجاں/ خون دے وچ ڈبو لیندے نیں/ اِک دروازے کولوں لنگھدیاں/ اج وی قدم کھلو رہندے نیں/ دل اندر ای ہس پیندا ہے/ نین اندر ای رو لیندے نیں!
آج کا مقطع
یہ ایسی اخوت ہے کہ شامل ہیں ظفرؔ بھی
لڑتے نہیں آپس میں طلب گار تمہارے

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں