سال ختم ہونے سے پہلے حکومت کو گھر جانا ہوگا: بلاول
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''سال ختم ہونے سے پہلے حکومت کو گھر جانا ہوگا‘‘ کیونکہ یہ جب سے آئی ہے‘ دن رات اِدھر اُدھر ہی گھومتی پھر رہی ہے اور کبھی گھر جانے کا نام تک نہیں لیا؛ حالانکہ گھر اسی لیے ہوتے ہیں کہ ان میں ہر شام جایا بھی جائے ؛اگرچہ کچھ گھر ایسے بھی ہوتے ہیں ‘جو بیرونی ملکوں میں بنائے جاتے ہیں‘ جس میں یہاں سے فارغ ہو کر ہی جایا جا سکتا ہے یا وہ گھر قومی خدمت کے نتیجے میں ملک کے اندر بنائے جاتے ہیں‘ ایک تو وہ ہوتے ہیں‘ جو کسی اور کے نام ہوتے ہیں اور ان میں رہتا بھی کوئی اور ہے‘ لیکن ان میں خرابی یہ ہوتی ہے کہ حکومت انتقامی کارروائی کرتے ہوئے انہیں ضبط بھی کر لیتی ہے اور سارے کیے کرائے پر پانی پھر جاتا ہے۔آپ اگلے روز میڈیاسے گفتگو کر رہے تھے۔
ویڈیو نواز شریف کی بے گناہی کا ثبوت ہے: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ '' ویڈیو نواز شریف کی بے گناہی کا ثبوت ہے‘‘ بلکہ یہ مریم نواز کی بیگناہی کا ثبوت بھی ہے‘ کیونکہ یہ پیش بھی انہی نے کی تھی‘ جس دوران جملہ معززین جماعت مع شہباز شریف خود بہ نفسِ نفیس بھی موقعہ پر موجود تھے اور اگر ان کیخلاف بھی کوئی مقدمہ بنایا گیا تو یہ ان کی بے گناہی کا ثبوت بھی ہوگی اوریہ جو حکومت آئے روز نواز شریف کیخلاف نئے نئے مقدمات کا انکشاف کر رہی ہے تو یہ بھی ان کی بیگناہی ہی کا ثبوت ہے‘ جس میں بالآخر انہوں نے بری ہو جانا ہے‘ جبکہ جیل میں رہنا ان کے لیے بھی مفید ہے اور ان کی پارٹی کے لیے بھی‘ بلکہ ان کی صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔ ع
ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے
آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک پریس ریلیز جاری کر رہی تھیں۔
ریکارڈکی درستی
ایک صاحب نے آج اپنے کالم میں علامہ اقبالؒکا یہ مصرعہ اس طرح نقل کیا ہے۔ ع
غلامی سے بدتر ہے بے یقینی
اس میں لفظ ''بدتر‘‘نے اسے بے وزن کر دیا ہے‘ کیونکہ اصل مصرعہ اس طرح سے ہے۔ ع
غلامی سے بتر ہے بے یقینی
کیونکہ ''بتر‘‘ بھی بدتر ہی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
ایک اور صاحب نے اپنے کالم کا عنوان اس طرح جمایا ہے:
دروغ بہ گردنِ راوی
اصل جملہ ''دروغ بر گردنِ راوی‘‘ ہے؛ اگرچہ مطلب دونوں کا ایک ہی نکلتا ہے‘ لیکن ''بہ‘‘ ''کے ساتھ‘‘ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے ‘بلکہ ''بہ‘‘ کی بجائے صرف لفظ سے پہلے ''ب‘‘ لگانے سے بھی کام لیا جاتا ہے‘ مثلاً بسلسلہ‘ بشرطیکہ‘ بدست وغیرہ وغیرہ۔
کشمیر ہمارا ہے‘کشمیر ہمارا ہے
یہ کتاب ناصر زیدی کی مرتب کردہ ہے ‘جسے القلم فائونڈیشن لاہور نے چھاپا ہے اور جس کا انتساب مجیب الرحمن شامی کے نام ہے۔ اس میں وہ نظمیں شامل کی گئی ہیں ‘جو مختلف شعراء نے کشمیر کے موضوع پر تخلیق کی ہیں۔ اب ‘جبکہ کشمیر کا موضوع اپنے نکتہ عروج کو چھو رہا ہے تو یہ کتاب خاصی دلچسپی سے زیر مطالعہ رہنے کا امکان ہے‘اس کتاب میں جن شعرائے کرام کا کلام شامل کیا گیا ہے ‘ان کی اسمائے گرامی‘ (چیدہ چیدہ) یہ ہیں؛ابو الاثر حفیظ جالندھری‘ احمد شمیم‘ احمد ظفر‘ احمد فراز‘ احمد ندیم قاسمی‘ اختر انصاری‘ پیام شاہجان پوری‘ توصیف تبسم‘ حبیب جالب‘ حفیظ تائب‘ راغب مراد آبادی‘ رشیدہ سلیم سیمیں‘ رئیس امروہوی‘ سجاد باقر رضوی‘ سید ضمیر جعفری‘ سید عابد علی عابد‘ شان الحق حقی‘ طفیل ہوشیار پوری‘ ظہیر کاشمیری‘ عبدالعزیز فطرت‘ قتیل شفائی‘ قیوم نظر ‘ کنول فیروز‘ محسن احسان‘ محشر بدایونی ‘ مختار صدیقی‘ ناصر زیدی‘ ڈاکٹروحید قریشی‘ ہوش ترمذی و دیگران۔ پیش لفظ مرتب کا قلمی ہے۔
جدوجہدِ آزادیٔ کشمیر کے موضوع پر لکھی جانے والی یہ نظمیں جذب و شوق سے پڑھی جائیں گی۔ ہمارے یہ عزیز دوست کافی عرصے سے صاحب ِ فراش ہیں‘ ان کی صحتیابی کیلئے قارئین سے اپیل ہے۔
اور‘ اب آخر میں ضمیر طالب کی یہ تازہ غزل:
مجھ سے کچھ بھی نہ چھپانے کے لیے
سو گیا حشر اٹھانے کے لیے
بڑی مشکل سے نکالا رستا
اب کہیں اور نہ جانے کے لیے
ایک طوفاں اٹھانا پڑے گا
ایک طوفان نہ اٹھانے کے لیے
پیار کا واسطہ دینا پڑا ہے
پیار سے اُس کو بچانے کے لیے
ملنا پڑتا ہے اسے روزانہ
بات آگے نہ بڑھانے کے لیے
اہتمام اتنا کیا تھا اُس نے
مجھے کچھ بھی نہ دکھانے کے لیے
عمر بھر رونا پڑا ہے مجھ کو
محض اک اشک بہانے کے لیے
دوست اک چاہئے ہے ہم کو خاص
ہاتھ دکھ میں نہ بٹانے کے لیے
جانے لگ جائیں زمانے کتنے
درد اس کو نہ سنانے کے لیے
مجھے منّت سے بلایا اس نے
چائے پر اور نہ کھانے کے لیے
اک ملاقات ضروری ہے ضمیرؔ
اسے کچھ بھی نہ بتانے کے لیے
آج کا مقطع
ظفرؔـ کمرے کی مشترکہ ہوا میں سانس لینا
اگر سمجھو تو عیاشی سے کم تر بھی نہیں ہے