عزیز ازجان ‘ محترم المقام مولانا صاحب!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
امید ہے کہ آپ کے مزاج بخیر ہوں گے‘ لیکن یہاں پر درجہ بدرجہ خیریت نہیں ہے‘ کیونکہ جیل والوں نے آلو شوربہ پلا پلا کر میری مت مار رکھی ہے۔خدا انہیں غارت کرے۔
اس خط کا واحد مقصد آپ کو یہ یقین دلانا ہے کہ میں اور میری جماعت دھرنے میں آپ کے ساتھ ہے‘ لیکن میں شہباز شریف کی قسم نہیں دیتا‘ کیونکہ وہ اب بھی حکومت سے ڈیل کی امید لگائے بیٹھا ہے ‘جبکہ مجھ سے تو وہ پیسے ہی اتنے مانگ رہے تھے کہ جسے سن کر میرا دماغ ہی گھوم گیا؛ اگرچہ یہ عام حالات میں بھی گھومتا رہتا ہے‘تاہم میں برخوردار حسین نواز کو پیغام بھیجا تھا کہ پیسوں کا بندوبست کر دے اور اس نے ہامی بھری بھی تھی‘ لیکن مریم نے اسے منع کر دیا کہ خبردار جو تم نے ایک پیسہ بھی بھیجا‘ کیونکہ اس کا خیال ہے کہ میری بقایا عمرِ عزیز جیل ہی میں گزر جائے ‘تا کہ وہ آرام سے وزیراعظم بن سکے؛ حالانکہ شہباز شریف اس کے راستے کی سب سے بڑی دیوار ہے۔
آپ نے جس نیک کام کا آغاز ہے‘ میری دعا ہے کہ اللہ میاں اس میں آپ کو کامیاب و کامران فرمائے اور اگر آپ نے اس حکومت کو واقعی گھر بھیج دیا تو یہ مجھ پر بہت بڑا احسان ہوگا اور میرا بال بال آپ کا مقروض ہوگا؛ اگرچہ میرے سر پر بال برائے نام ہی باقی رہ گئے ہیں'لیکن پھر بھی تسلی بخش تعداد میسر آ سکتی ہے۔ اس لیے فکر مند ہونے کی کوئی ضروری نہیں ہے۔ یہ سن کر کہ دھرنے میں حکومت کی طرف سے حلوے اور بریانی وغیرہ سے شرکاء کی خدمت کی جائے گی‘ میرے بھی منہ میں پانی بھر آیا ہے اور اگر آپ میرے لیے بھی دو چار جیبیں ان سے بھر کر لے آئیں‘ تو یہ مزید احسان ہوگا‘ کیونکہ میرے لیے تو یہ چیزیں خواب و خیال ہو کر رہ گئی ہیں‘جبکہ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جن دنوں میں آپ کی خدمت کیا کرتا تھا تو آپ اپنی واسکٹ کی لاتعداد جیبیں پوری طرح بھرنے کی کوشش کرتے تھے‘ یعنی آپ کے پاس جیبوں کی ہرگز کمی نہیں ہے۔
فقط:آپ کی کامیابی کے لیے دعا گو‘ آپ کا نیاز مند
آزادی مارچ قومی تحریک‘ اسے روکنے
کے لیے کسی نے رابطہ نہیں کیا: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''آزادی مارچ قومی تحریک‘ اسے روکنے کے لیے کسی نے رابطہ نہیں کیا‘‘ حالانکہ اخلاقی طور پر حکومت کو فوری رابطہ کرنا چاہیے تھا‘ کیونکہ میں نے ہمیشہ سے ہی افہام و تفہیم سے کام لیا ہے اور اب تک جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں‘ وہ سول ہوں یا فوجی‘ میرا تعاون انہیں ہمیشہ ہی حاصل رہا ہے‘ کیونکہ روپے پیسے کی کسی کے ہاں کمی نہیں تھی اور وہ اسے استعمال کرنا بھی خوب جانتے تھے‘ اس لیے 27 اکتوبر میں تو ابھی کافی دن پڑے ہیں اور میں نے اسی لیے لمبی تاریخ بھی طے کی ہے کہ حکومت کو میرے ساتھ رابطہ کرنے کے لیے کافی وقت میسر ہو۔ ویسے بھی سیاست امکانات ہی کا نام ہے کہ اس میں ہر بات ممکن ہوتی ہے؛ بشرطیکہ حکومت عقلمندی کا مظاہرہ کرے‘ جس کی مجھے اس حکومت سے خاصی امید بھی ہے‘ جبکہ وہ چندے کے چند پیسے جمع ہوئے ہیں یا نواز لیگ اور پیپلز پارٹی نے ازراہِ تعاون جو رقم ارسال کر رکھی ہے‘ میرا اسے خرچ کرنے کو اور وہ بھی مارچ اور دھرنے جیسی بیکار چیزوں پر ‘ بالکل جی نہیں چاہتا‘ کیونکہ اس کے متعدد بہتر استعمال بھی موجود ہیں۔ آپ اگلے روز چنیوٹ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
شہباز شریف ٹائم بم ہیں‘ وقت آنے پر چلیں گے: کیپٹن (ر) صفدر
مستقل نا اہل اور سزایافتہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے سزا یافتہ داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف ٹائم بم ہیں‘ وقت آنے پر چلیں گے‘‘ اسی لیے ہم ان سے ذرا فاصلے پر ہی رہتے ہیں کہ کیا پتا کس وقت چل جائیں اور اپنے ساتھ ہمیں بھی لے ڈوبیں ‘جبکہ میں نے ان سے پوچھا بھی تھا کہ اپنے چلنے کا ٹائم بتا دیں‘ تا کہ ہم اِدھر اُدھر ہو جائیں اور اس مقررہ وقت پر چل جائیں‘ لیکن انہوں نے کہا کہ اس کا مجھے بھی کچھ پتا نہیں‘ کیونکہ اس کا سوئچ کسی اور کے پاس ہے‘ وہ جب چاہیں گے ‘مجھے چلا دیں گے ‘ورنہ میرا تو بہت جی چاہتا تھا کہ بھائی صاحب سے جیل میں ملاقات کے لیے جائوں اور وہیں چل بھی جائوں‘ لیکن یہ آرزو پوری نہ ہو سکی اور یہ بھی اچھا ہوا کہ وہ دھرنے میں شامل نہیں ہو رہے‘ ورنہ دھرنا بھی تہس نہس ہو جاتااور حکومت کو گرانے کا کام بھی بیچ میں ہی رہ جاتا اور ہم سب کی امیدوں پر پانی پھر جاتا۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں ابرار احمد کی تازہ نظم:
منزلِ صبح
یہ جو معمورۂ دنیا ہے‘ یہاں/ سب کے حصے کا سفر ہوتا ہے/ سب کے قدموں میں لکھی ہوتی ہے/ اک مسافت‘ کسی منزل کی طرف/ ہم نے چل پھر کے بہت دیکھ لیا/ ہر روش خاک اڑا لی ہم نے/ اور اس راہ کا/ اک پھول ہو تم/ پھُول بھی سب سے الگ/ جس کی خوشبو سے/ مہکتے رہے ہم/ جس کی رنگت سے / دمکتے رہے ہم/ ہم تو اب‘ ٹھہرے چلے جاتے ہیں/ اور آگے‘ بہت آگے کو/ نکلنا ہے تمہیں/ منزلِ صبح ہے/ اور ٹھنڈی ہوا چلتی ہے/ میرے بچّے‘ سفر آغاز ہوا/ جس جگہ پائوں پڑے/ رنگ کھِلے/ جس طرف آنکھ اٹھے/ قوسِ قزح بن جائے/ جائو بچّے/ ہے قرینہ بھی یہی/ ساعتِ وصل/ جدائی کا مہینا بھی یہی/ جب بھی تم توٹ کے آئو/ ہمیں پائو گے یہیں/ انہیں دیواروں کے اندر/ یا تہِ خاک کہیں!
آج کا مطلع
ہم اپنے پاس بیٹھیں یا تمہارے ساتھ جائیں
یہ وہ دریا نہیں جس کے کنارے ساتھ جائیں