"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن اور کبیر اطہر کی تازہ غزل

ہمیں روکنا سیلاب روکنے کے مترادف ہوگا: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ہمیں روکنا سیلاب روکنے کے مترادف ہوگا‘‘ کیونکہ ہم سیلاب ہی کی طرح آئیں گے اور وہی کچھ کریں گے ‘جو سیلاب کرتا ہے‘ یعنی سب کچھ ساتھ بہا لے جائیں گے اور حکومت بعد میں جگہ جگہ کیمپ لگاتی پھرے گی‘ اس لیے اتنا نقصان اٹھانے سے بہتر ہے کہ حکومت گھر چلی جائے‘ کیونکہ جس طرح وہ سیلاب کو نہیں روک سکتی‘ ہمیں روکنے کا بھی کوئی امکان نہیں اور ہمارے دھرنے سے شہر اقتدار میں جو گند پھیلے گا‘اس سے اسلام آباد والوں کا جینا دو بھر ہو جائے گا‘ دکانیں اور کاروبار ‘ سکول اور جملہ دفاتر کو تالا لگ جائے گا اور ہر طرف ایک ہُو کا عالم ہوگا ‘جبکہ پھلوں اور مٹھائی کی دکانوں سے بھی بھرپور استفادہ کیا جائے گا ۔ آپ اگلے روز چارسدہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
آزادی مارچ: حکومت کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں: نیئر بخاری
پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل نیئر بخاری نے کہا ہے کہ ''آزادی مارچ کی وجہ سے حکومت کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں‘‘ جس کی وجہ مارچ کے لیے ہماری اخلاقی امداد ہے‘ کیونکہ ہمارے پاس اخلاق کے چونکہ ڈھیر لگے ہوئے ہیں ‘اس لیے یہی ان کی خدمت میں پیش کیا جائے گا‘ جبکہ ہم نے ساری کمائی اپنی خوش اخلاقی ہی کے بل بوتے پر اکٹھی کی ہے اور جس کے پاس جتنا زیادہ اخلاق ہے‘ اس نے اُسی حساب سے رزق جمع کیا ہے اور چونکہ ہم میں سب سے زیادہ اخلاق یافتہ زرداری صاحب ہیں‘ اس لیے ان کا رزق بھی کسی شمار و قطار میں نہیں‘ بلکہ چیئر مین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو اُن سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں‘ کیونکہ جعلی اکائونٹس کے حوالے سے اُن کے نتائج زرداری صاحب سے بھی زیادہ اور بابرکت ہیں ‘بلکہ ان دونوں کے علاوہ بھی ہمارے کسی آدمی کو کم اخلاق نہیں کہا جا سکتا۔ سو‘ اس لحاظ سے ہم میں سے کوئی بھی اخلاق باختہ نہیں ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
عمران خان! آپ کی باری آئے گی تو لگ پتا جائے گا: سعد رفیق
سابق وزیر ریلوے اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''عمران خان! آپ کی باری آئے گی تو لگ پتا جائے گا‘‘ تاہم وہ ہماری باری کے ختم ہونے پر ہی آئے گی‘ جو قیامت تک ختم ہوتی نظر نہیں آتی ‘کیونکہ ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں‘ جو حکومت کی انتقامی کارروائیوں کا سزاوار نہ ہواور جس نے عوام کی دونوں ہاتھوں سے خدمت نہ کی ہو‘ کیونکہ خدمت ہی ہمارا نصب العین اور ماٹو تھا‘ جو ہمارے قائدین کا خصوصی ویژن تھا اور جن کا اعلان تھا کہ خدمت کے بغیر تیز رفتار ترقی ہو ہی نہیں سکتی؛اگرچہ ترقی تو کوئی خاص نہیں ہوئی؛ البتہ خدمت کے انبار لگا دیئے گئے ‘جو لندن اور دبئی وغیرہ تک بھی پہنچ چکی‘ لیکن حکومت یہ ساری خدمت واپس لینے پر تلی ہوئی نظر آتی ہے اور خدمت کی بعض نشانیوں کو بحق ِسرکار ضبط بھی کیا جا رہا ہے اور اگر یہی صورت حال رہی ‘تو آئندہ ملک ِعزیز میں خدمت کا کوئی نام بھی لینے کو تیار نہ ہوگا۔ آپ اگلے روز احتساب عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا کے نمائندوںسے غیر رسمی گفتگو کر رہے تھے۔
زرداری‘ فریال تالپور کو پاکستان سے 
پیار کرنے کی سزا مل رہی ہے: کائرہ
پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''زرداری اور فریال تالپور کو پاکستان سے پیار کرنے کی سزا مل رہی ہے‘‘ مثلاً جعلی اکائونٹس کو ہی لے لیجئے‘ یہ سارا کھاتہ پاکستان سے پیار ہی کے ساتھ بھرا پڑا ہے‘ جبکہ زرداری صاحب تو اس کے علاوہ بھی پاکستان سے پیار کا ثبوت دیتے رہے ہیں اور اب تک دے رہے تھے‘ لیکن حاسدوں کو ایک آنکھ نہ بھایا اور انہیں خواہ مخواہ اندر کر دیا گیا‘ جسے وہ پہلے تو اپنا دوسرا گھر قرار دیتے تھے‘ لیکن اب جیل میں ان کا جی نہیں لگ رہا اور چاہتے ہیں کہ انہیں رہا کر دیا جائے‘ تا کہ وہ پاکستان سے پیار کی پینگیں مزید بڑھا سکیں ‘لیکن اس کی بجائے ان کا پیار ہی ضبط کیا جا رہا ہے ۔ آپ اگلے روز ایک وفد سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ڈاکٹر کبیر اطہر کی تازہ غزل:
دُکھ مقبروں پہ جا کے گھٹا ہی نہیں مرا
رقص و سرود مسئلہ تھا ہی نہیں مرا
گُم صُم ہوں بیوی بچّوں کی جانیں بچا کے میں
ماں کی طرف تو دھیان گیا ہی نہیں مرا
ممکن تھی دل کے پھول میں خوشبو کی واپسی
لیکن ہوا نے ساتھ دیا ہی نہیں مرا
مجھ گمشدہ کا شہر میں وارث کوئی نہیں
اعلان مسجدوں میں ہوا ہی نہیں مرا
کیسے پتا چلے گا ہے مجھ میں ضیاء مری
گر روشنی سے رنگ جُدا ہی نہیں مرا
درکار ہے اجل سے مجھے خوں بہا کہ میں
جس میں مرا ہوں حادثہ تھا ہی نہیں مرا
چنتا رہا ہوں روشنی کے پھول آگ سے
کیسے کہوں کہ ہاتھ جلا ہی نہیں مرا
مجھ تک پہنچ گیا ہے مجھے ڈھونڈتے ہوئے
معلوم جس کو نام پتا ہی نہیں مرا
بخیے لگا کے اُس کو دکھایا گیا‘ کبیرؔ
وہ ہاتھ جس نے زخم سیا ہی نہیں مرا
آج کا مقطع
یہ گھر جس کا ہے اُس نے واپس آنا ہے ظفرؔ اس میں
اسی خاطر در و دیوار کو چمکائے رکھتے ہیں

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں