حکومت شہد کی مکھیوں کے چھتے کو ہاتھ نہ لگائے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکومت شہد کی مکھیوں کے چھتے کو ہاتھ نہ لگائے‘‘ کیونکہ یہ شہد کی مکھیوں کا ہے ہی نہیں‘ بلکہ بھڑوں کا چھتہ ہے‘ جس میں سے شہد کی بجائے بھڑوں کے انڈے ہی برآمد ہوں گے‘ جبکہ ہم خود بھی اسے کافی عرصے تک شہد کی مکھیوں کا چھتہ ہی سمجھتے رہے ہیں‘ اس لئے حکومت کو دل سے یہ مغالطہ نکال دینا چاہیے اور شہد کا بندوبست کسی اور جگہ سے کرنا چاہیے‘ جبکہ ہم وہ مکھیاں ہیں ‘جو حکومت کی ناک پر بیٹھنا چاہتی ہیں‘ لیکن ایسا لگتا کہ ہمارے مارچ اور دھرنے کے دوران حکومت مکھی پر مکھی مارنے کا شوق ہی پورا کرے گی اور ہمارا پلان دھرے کا دھرا ہی رہ جائے گا ۔ آپ اگلے روز اپنی رہائش گاہ پر میر حاصل بزنجو سے ملاقات کر رہے تھے۔
حکومت کی وجہ سے لوگوں کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت کی وجہ سے لوگوں کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں‘‘ اور شکر ہے کہ ہم بچ گئے ہیں‘ کیونکہ ہمارے پاس تو دینے کو کچھ تھا ہی نہیں اور لینے کا سوال اس لئے پیدا نہیں ہوتا کہ حکومت خود فقری ہے‘ دوسروں کو کیا دے گی؟ بلکہ یہ تو خود لینے والوں میں سے ہے اور اس نے ہمارے آگے بھی کشکول بڑھایا تھا‘ جس میں بس دو چار ہی روپے موجود تھے‘ جو ہم نے تبرک سمجھ کر نکال لئے کہ اس حکومت کی ہمارے پاس کچھ تو یادگار رہ جائے‘ تاہم ہم نے کشکول سے کچھ غرض نہ رکھی؛ حالانکہ اس کی ہمیں بھی ضرورت تھی‘ کیونکہ ہمیشہ اقتدار سے محروم رہنے کی وجہ سے ہماری حالت بھی فقیروں جیسی ہو گئی ہے‘ جبکہ اقتدار تو آن کی آن میں بندے کو مالا مال کر دیتا ہے‘ لیکن ہم اس گاڑی کے بیل ہی نہیں ہیں‘ بلکہ محنتی لوگ ہیں اور ہمیں کسی بھی اور گاڑی میں جوتا جا سکتا ہے‘ آزمائش شرط ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں سیکرٹری جنرل امیر العظیم اور نائب امیر لیاقت بلوچ سے گفتگو کر رہے تھے۔
زرداری کو کچھ ہوا تو ذمہ دار موجودہ حکومت ہوگی: بلاول بھٹو
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''زرداری کو کچھ ہوا تو ذمہ دار موجودہ حکومت ہوگی‘‘ حالانکہ سب کو اپنا اپنا کام خود کرنا چاہیے‘ جیسا کہ ہم سب اپنا اپنا کام خود کرتے ہیں؛اگرچہ کام ایک ہی ہوتا ہے ‘کیونکہ یہ کام کوئی اور کر ہی نہیں سکتا کہ اس میں ہنرمندی بھی اس قدر درکار ہوتی ہے کہ کچھ نہ پوچھئے‘ تاہم اپنے اپنے کام کا ذمہ دار ہر کوئی خود ہوتا ہے‘ جس کا حساب لینے کیلئے حکومت آ موجود ہوتی ہے؛ حالانکہ اسے اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے اور دوسروں کے کام میں دخل در معقولات سے باز رہنا چاہیے ‘کیونکہ ہمارا کام تو سرا سر ہی معقولات کے زمرے میں آتا ہے اور اب ہم اس حکومت کو ختم کرنے کے درپے ہیں‘ کیونکہ حکومت ہمیں ختم کرنے کے درپے ہے اور کوئی اس کو پوچھنے والا بھی نہیں اور یہ اُلٹا ہم سے پوچھ رہی ہے‘ کیسا زمانہ آ گیا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں عدالت سے زرداری کو ہسپتال منتقل کرنے کی درخواست مسترد ہونے پر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
جمہوریت کے نام پر!
ایک اخباری اطلاع کے مطابق‘ پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے عہدیداران کا اعلان ‘چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی منظوری کے بعد کر دیاگیا ہے اور اس کے ساتھ ہی ا یک اور خبر کے مطابق‘ مسلم لیگ ن کے عہدیداران کے ناموں کا بھی اعلان کر دیاگیا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ان دونوں جماعتوں میں عہدیداروں کی صرف نامزدگیاں ہوتی ہیں‘ بلکہ نواز لیگ کا تو پرچی سسٹم بہت مشہور ہے اور یہ دونوں جماعتیں وہ ہیں‘ جو جمہوریت کی سب سے بڑی جماعتیں ہونے کی دعویدار بھی ہیں اور ان جماعتوں میں پارٹی الیکشن کا کوئی رواج ہی نہیں‘ جو کہ جمہوریت کی بنیادی شرط ہے؛ حتیٰ کہ ساری صورت حال معلوم ہونے کے باوجود انہیں الیکشن کمیشن نے بھی کبھی نہیں پوچھا اور یہ زبانی کلامی جمہوریت کی گردان اس لیے کرتی رہتی ہیں کہ یہی وہ نظام ہے ‘جس کے ذریعے یہ زر اندوزی کا معرکہ سرانجام دے سکتی ہیں اور انہوں نے اپنی اپنی باریاں مقرر کر رکھی تھیں اور ایک دوسری کی کمر کھجانے ہی میں مصروف رہتی تھیں۔
اور‘ اب آخر میں ضمیر طالب کی شاعری:
میں یہاں باطنی ہوتا ہوں
اور وہاں ظاہری ہوتا ہوں
میں یہاں ہوتا نہیں ہوں کبھی
اور وہاں ہر گھڑی ہوتا ہوں
منعقد ہوتا ہے کوئی اور
میں تو بس ملتوی ہوتا ہوں
یہاں کمّی بھی نہیں ہوں میں
اور وہاں چودھری ہوتا ہوں
یہاں تو وہم ہے ہونے کا
اور وہاں واقعی ہوتا ہوں
دیکھنا ہے تو وہاں دیکھو
میں وہاں دیدنی ہوتا ہوں
میں وہاں ہوتا تھا پہلا ضمیرؔ
............
اور یہاں آخری ہوتا ہوں
اُس کا ہے اور نہ میرا کوئی وجود
کس جہاں کو روانیا گیا ہوں
اُتنی دفعہ بدل گیا مفہوم
جتنی دفعہ بیانیا گیا ہوں
آج کا مقطع
ظفرؔ ہمیشہ کی طرح پھر سے نکل گیا ہے
ابھی جو مچھلی کی طرح میرے ہاتھوں میں آ رہا تھا