"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں اُن کی‘ متن ہمارے!!

وزیراعظم دھمکیاں ‘ وزراء مذاکرات 
کا جھانسہ دیتے ہیں: احسن اقبال
نواز لیگ کے سیکرٹری جنرل اور مرکزی رہنما چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم دھمکیاں اور وزراء مذاکرات کا جھانسہ دیتے ہیں‘‘ اول تو ہم چور چور کہنے کو دھمکی نہیں سمجھتے‘ کیونکہ چور بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور برابر کے شہری ہیں اور اپنا کردار ادا کر رہے ہیں‘ کیونکہ آدمی کو وہی کام کرنا چاہیے ‘جو اسے آتا ہو‘ کیونکہ ہم بھی وہی کام کرتے رہے ہیں ‘جو ہمیں آتا ہے اور جیسا یہ ہمیں آتا ہے کسی اور کو نہیں آتا‘ سوائے زرداری صاحب کے‘ لیکن ہمارا مقابلہ وہ بھی نہیں کر سکتے‘ بیشک کسی سے بھی پوچھ لیں‘ تاہم چور کی حد تک تو ٹھیک ہے ‘لیکن ہمیں ڈاکو کہنا سراسر زیادتی ہے‘ کیونکہ ڈاکو زبردستی چھینتے ہیں‘ لیکن چور تو کام ایسے آرام سے کرتے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر ہی نہیں ہوتی‘ بلکہ حق بات تو یہ ہے کہ چور اُس وقت چور کہلاتا ہے‘ جب وہ پکڑا جائے‘ اس سے پہلے وہ سادھ ہی ہوتا ہے اور اس جیسا شریف آدمی کوئی ہوتا ہی نہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومتی ٹولہ قومی رہنماؤں پر کیچڑ اچھال رہا ہے: امیر حیدر ہوتی
خیبرپختونخوا کے سابق وزیراعلیٰ اور عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر نائب صدر امیر حیدر خان ہوتی نے کہا ہے کہ ''حکومتی ٹولہ قومی رہنماؤں پر کیچڑ اچھال رہا ہے‘‘ اور پتا نہیں اتنا کیچڑ اس نے کہاں سے لیا ہے‘ جو ختم ہونے میں ہی نہیں آتا اور آئے دن کسی نہ کسی رہنما کے کپڑے خراب کر دیئے جاتے ہیں‘ جبکہ صابن اس قدر مہنگا ہو چکا ہے‘ اس لئے دوسرے سارے کاموں کی بجائے سب سے پہلے اسے صابن سستا کرنا چاہیے‘ جبکہ سب جانتے ہیں کہ سیاست ایک کاروبار ہے‘ جس پر الیکشن کے موقعہ پر اچھی خاصی سرمایہ کاری کی جا چکی ہوتی ہے۔سو‘ اس کاروبار میں اگر چار پیسے منافع کے طور پر آ جاتے ہوں تو کسی کا کیا جاتا ہے اور اسی لئے تاجر طبقہ بھی ناراض ہے اور ہڑتالیں کرتا پھر رہا ہے اور جس کا صاف مطلب ہے کہ حکومت کاروبار ہی کیخلاف ہے اور اسی لیے ملک کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ چلنے سے بھی معذور نظر آتا ہے۔ آپ اگلے روز تخت بھائی میں وفد اور میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
کٹھ پتلی حکومت کے دن پورے ہو چکے ہیں: مولا بخش چانڈیو
پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے کہا ہے کہ '' کٹھ پتلی حکومت کے دن پورے ہو چکے ہیں‘‘ جبکہ میں خود انہیں گنتا رہا ہوں اور پچھلے پندرہ ماہ سے اس کام پر لگا ہوا ہوں اور اب ‘جا کر میرا حساب پورا ہوا ہے اور میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مولانا کے مارچ والا دن حکومت کا آخری دن ہوگا اور اگر یہ اس دن ختم نہ ہوئی تو پھر اس نے کبھی ختم نہیں ہونا اور اس طرح ہمارے سینوں پر مونگ دلتی رہے گی؛ حالانکہ مونگ وغیرہ دلنا چکیوں کا کام ہوتا ہے؛ چنانچہ اسے چاہیے کہ حکومت کرنا چھوڑ دے اور ہمارے سینوں پر مونگ دلتی رہے‘ کیونکہ ہمیں بھی اس کی عادت پڑ چکی ہے‘ لیکن بالآخر ان کے مونگ ختم ہو جائیں گے‘ ہمارے سینے ختم نہیں ہوں گے ‘اول تو زرداری صاحب اور دیگر معززین کے سینوں پر دلنے کے بعد حکومت کے پاس برائے نام ہی مونگ باقی رہ جائے گی۔ آپ اگلے روز فردوس عاشق اعوان کی پریس کانفرنس پر اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے تھے۔
حکومت ہر میدان میں فیل ہو چکی ہے: افضل کھوکھر
سینئر مسلم لیگی رہنما ایم این اے ملک محمد افضل کھوکھر نے کہا ہے کہ ''حکومت ہر میدان میں فیل ہو چکی ہے‘‘ کیونکہ میں نے ملک کے ہر میدان کا بغور معائنہ کیا ہے اور پتا چلا ہے کہ وہ کسی میدان میں بھی پاس نہیں ؛حالانکہ اگر یہ تھوڑی سی بھی عقلمندی سے کام لیتی تو نقل کا سہارا لے کر پاس ہو سکتی تھی‘ جیسا کہ ہم نے پورے صوبے میں نقل کو قانونی قرار دے رکھا ہے‘ کیونکہ طلباء نے نقل ہر صورت مارنی ہوتی ہے‘ بلکہ اب تو نگران حضرات اس کام میں اُن کی مدد بھی کرتے ہیں اور اب وہ کرکٹ سمیت کسی بھی میدان میں فیل نہیں ہوتے اور ہزاروں لاکھوں کے حساب سے پاس ہو رہے ہیں اور سرکاری نوکری وغیرہ کے سلسلے میں انہیں کوئی دقت پیش نہیں آتی اور ہر طرف علم کا ڈنکا بج رہا ہے ‘جو ہر کسی کو سنائی بھی دے رہا ہے ‘بلکہ بہروں کو بھی سنائی اور اندھوں کو دکھائی دے رہا ہے۔ آپ اگلے روز رائے ونڈ میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
حکومت کو گھر بھیجنے کیلئے فیصلہ کن اقدام ضروری ہیں: جمیل منج
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما رانا جمیل اختر منج نے کہا ہے کہ ''حکومت کو گھر بھیجنے کیلئے فیصلہ کن اقدام ضروری ہو گئے ہیں ‘‘ اور ہم سب مولانا فضل الرحمن کے مارچ اور دھرنے ہی سے ساری امیدیں لگائے بیٹھے ہیں ‘لیکن عمران خان کے استعفیٰ کے بغیر ہی مذاکرات پر تیار ہو کر انہوں نے ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے‘ بلکہ مذاکرات میں وہ دھرنے سے بھی مُکر جانے کو تیار نظر آتے ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مارچ ہی اس قدر بے جان رہ جائے کہ سارا کھوتا ہی کھوہ کی نذر کر دیا جائے‘ کیونکہ یہ کسے معلوم نہیں کہ مولانا صاحب ضرورت مند آدمی ہیں اور جس کا رونا وہ ایک عرصے سے صبح و شام روتے بھی رہتے ہیں اور یہ نہ ہو کہ جملہ معززین جیل کے اندر ہی رہ جائیں اور مولانا صاحب‘ السلامُ علیکم کہہ کر ایک طرف ہو جائیں اور ساتھ ہی ہم دونوں پارٹیوں کا جلوس بھی نکال دیں‘ جو جشن منانے اور مٹھائی بانٹنے کیلئے تیار بیٹھی ہیں اور خود مولانا صاحب کی سیاست کابھی کباڑا ہو جائے۔ آپ اگلے روز رائے ونڈ میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
آج کا مقطع
ہم اس کی بندگی سے بھی غافل نہیں ظفرؔ
اپنا خدا ہے اور صنم کے علاوہ ہے

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں