نواز شریف کو کچھ ہوا تو ذمہ دار حکومت ہوگی: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کو کچھ ہوا تو ذمہ دار حکومت ہوگی‘‘ نیز زرداری صاحب کو بھی اگر کچھ ہوا تو اس کی ذمہ دار بھی حکومت ہوگی اور اگر خدانخواستہ مارچ یا دھرنے کے دوران کچھ ہوا تو اس کا ذمہ دار میں خود ہوں گا‘ کیونکہ پنگا بھی میں نے ہی لیا تھا؛ اگرچہ مجھے اتھل دینے والے کئی اور بھی تھے اور اگر انہیں کچھ ہوتا ہے‘ تو وہ بھی اپنا اپنا حصہ ہی ادا کریں گے‘ بلکہ اب تو ایک چھوٹا سا مقدمہ قائم ہوتے ہی اچھے بھلے کیپٹن (ر) صفدر بھی بیمار پڑے گئے ہیں اور اگر انہیں سزا ہو جاتی ہے تو ان کی بیماری میں خدانخواستہ تشویشناک حد تک اضافہ جائے گا اور اگر مارچ کے دوران یا اس سے پہلے مجھے گرفتار کیا گیا تو ابھی میں اندازہ نہیں لگا سکتا کہ میں نے کس بیماری میں مبتلا ہونا ہے۔ آپ اگلے روز سکھر میں میڈیا کے نمائندوںسے گفتگو کر رہے تھے۔
عمران خان احسان فراموش‘ معیشت کا بیڑا غرق کر دیا: شہباز شریف
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''عمران خان احسان فراموش‘ معیشت کا بیڑا غرق کر دیا ہے‘‘ کیونکہ ہم نے ان سے الیکشن ہار کر ان پر احسان ہی کیا ہے اور شاید اگلی بار کسی اور پر احسان کرنا پڑے‘ کیونکہ اس وقت ہم توسرکاری مہمان ہوں گے اور خیرسے نااہل بھی قرار پا چکے ہوں گے اور جہاں تک معیشت کا بیڑا غرق کرنے کا تعلق ہے تو یہ بھی انہوں نے ہماری نقل اُتاری ہے‘ جبکہ نقل مارنا کوئی اچھی بات نہیں اور نقل مارنے کیلئے جتنی عقل کی ضرورت ہوتی ہے‘ انہیں وہ بھی دستیاب نہیں‘ لیکن ہمارا کمال یہ ہے کہ ہم نے معیشت کی تباہی کا پتا ہی نہیں چلنے دیا؛ حالانکہ جس تیز رفتاری سے ہم ترقی کر رہے تھے‘ کسی کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس ترقی سے خزانہ بھی خالی ہو سکتا ہے آپ اگلے روز لاہور میں پارٹی کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔
جمہوریت خطرے میں‘ کٹھ پتلی حکومت گرائیں گے: بلاول بھٹو
پاکستا پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''جمہوریت خطرے میں‘ کٹھ پتلی حکومت گرائیں گے‘‘ کیونکہ مولانا صاحب تو ڈر کر عمران خان کے استعفے کے مطالبے سے اِدھر اُدھر ہوتے نظر آ رہے ہیں‘ اس لیے یہ کارخیر مجھے ہی کرنا پڑے گا؛ بشرطیکہ میرے خلاف بھی انتقامی کارروائی نہ کر دی گئی‘ جبکہ حکومت جو جعلی اکاؤنٹس کی رٹ لگا رہی ہے‘ اس سے اس کا کیا تعلق ہے؟ حالانکہ ہم نے تو وہ اصلی اکاؤنٹ سمجھ کر ہی کھولے تھے‘ جو بعد میں پتا نہیں جعلی کیسے ہو گئے کہ ویسے بھی ملک ِعزیز میں چیزوں کا کچھ پتا نہیں چلتا کہ وہ کب اور کیا ہو جاتی ہیں اور سب نے گرگٹ کی شکل اختیار کر لی ہے‘ اس لئے حکومت کو سب سے پہلے اس خطرناک گرگٹ کا ملک سے قلع قمع کرنا ہوگا‘ تاکہ چیزوں کی اصلی صورت برقرار رہ سکے اور کُتے مار مہم سے فارغ ہو کر اسے اس مہم پر لگ جانا چاہیے ۔ آپ اگلے روز تھرپارکر میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
مارشل لاء لگا تو سب سے زیادہ خوشی شیخ رشید کو ہوگی: جاوید ہاشمی
سینئر بلکہ مہا سینئر سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ''مارشل لاء لگا تو سب سے زیادہ خوشی شیخ رشید کو ہوگی‘‘ اگرچہ ہماری جماعت کی خوشی بھی دیکھنے کے قابل ہوگی؛ اگرچہ اس سے ہمیں کچھ بھی حاصل وصول نہ ہوگا‘ لیکن مخالف کی ہانڈی ٹوٹنے کی خوشی کس کو نہیں ہوتی؟ اور اب تک ہماری جماعت کے جملہ سرکردہ لیڈر جو کچھ پہلے ہی اندر ہیں اور بقایا بھی ہونے والے ہیں ‘تو انہیں میرے بارے بھی سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ اس ڈوبتی ہوئی نیا کو میں ہی کنارے لگا سکتا ہوں‘ کیونکہ اس کیلئے میں نے چپو بھی نئے خرید لئے ہیں اور طاقت والی چیزیں بھی کھانا شروع کر دی ہیں ؛اگرچہ پیرانہ سالی کی وجہ سے وہ مجھے اچھی طرح ہضم نہیں ہو رہیں‘ جس کیلئے میں نے اپنی جماعت سے درخواست کر دی ہے کہ نواز شریف والی پھکی میں سے تھوڑی سی مجھے بھی عنایت کر دی جائے ‘کیونکہ میں ذرا تگڑا ہو کر پارٹی ہی کی خدمت کرنا چاہتا ہوں‘ اور اس خدمت کا تو اب زمانہ ہی نہیں رہا جو اچھے وقتوں میں کی جاتی رہی تھی۔ آپ اگلے روز لاہور میں سروسز ہسپتال کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں ضمیر ؔطالب کی تازہ غزل:
جو ٹہلنے کا ایک راستہ تھا
کیا پھسلنے کا ایک راستہ تھا
پھولنے کی جو راہ بند ہوئی
وہی پھلنے کا ایک راستہ تھا
مسکراہٹ ہمارے سینے پر
مونگ دلنے کا ایک راستہ تھا
جسے کرتے رہے سبھی ہموار
زہر اگلنے کا ایک راستہ تھا
موڑ مڑنے کی تھی جو گنجائش
رُخ بدلنے کا ایک راستہ تھا
ہجر جو مستقل رہا درپیش
سڑنے گلنے کا ایک راستہ تھا
ہم نے رُکنے کو رکھ لیا محفوظ
وہ جو چلنے کا ایک راستہ تھا
چاند جو دُور تھا بہت ہم سے
بس اُچھلنے کا ایک راستہ تھا
ساری سرشاریاں جوانی کی
عمر ڈھلنے کا ایک راستہ تھا
کر گزرنے کے تھے کئی‘ لیکن
بچ نکلنے کا ایک راستہ تھا
ٹوٹا پھوٹا پڑا ہوا تھا ضمیرؔ
جو سنبھلنے کا ایک راستہ تھا
آج کا مقطع
ہیں جتنے دائرے نئی ٹی شرٹ پر ظفرؔ
سوراخ اسی قدر ہیں پرانی جراب میں