"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘متن ’’تم بھی حد کرتے ہو‘‘ اور ابرارؔ احمد کی نظم

وزیراعظم کے استعفے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم کے استعفے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے‘‘ بلکہ ہم تو پیچھے ہٹنے کی بجائے اس سے بہت آگے نکل گئے ہیں‘ کیونکہ رہبر کمیٹی اور حکومتی پارٹی کے درمیان ملاقات کے آغاز ہی میں کہہ دیا گیا تھا کہ وہ استعفے اور نئے انتخابات پربات نہیں کریں گے‘ تو اس کے باوجود رہبر کمیٹی نے گفتگو کو جاری رکھا ‘کیونکہ ساتھ ساتھ یہ خبریں بھی آ رہی تھیں کہ رہبر کمیٹی کے سربراہ کے اپنے اور ان کے صاحبزادے کیخلاف اربوں کی کرپشن کے ضمن میں انکوائری ہو رہی ہے اور ان حضرات نے گرفتاری سے بچنے کیلئے اپنی ضمانتیں بھی کروا لی ہیں‘ بلکہ خاکسار کے ماضی کو بھی بری طرح کھنگالا جا رہا ہے‘ اس لیے اکرم درانی بیشک عمران خان کے استعفے سے پیچھے ہٹ جائیں‘ میں تو نہیں ہٹوں گا‘ کیونکہ میں نے سارا کام پوری احتیاط سے کیا ہوا ہے اور کسی بھی میں اتنا دم خم نہیں کہ اس کی تہہ تک پہنچ سکے اور سچی بات تو یہ ہے کہ فی زمانہ کوئی کسی کی خوشحالی برداشت نہیں کر سکتا۔ آپ اگلے روز لاڑکانہ میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
نواز شریف اور مریم نواز کو فوری طور پر ضمانت پر رہا کیا جائے: کائرہ
پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر اور مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''نواز شریف اور مریم نواز کو فوری طور پر ضمانت پر رہا کیا جائے‘‘ کیونکہ اس سے زرداری صاحب کی رہائی کی راہ بھی کھل جائے گی اور اب تو ماشاء اللہ ان کے پلیٹ لیٹس بھی کم ہونا شروع ہو گئے ہیں‘ اس لیے انہیں رہا کرنا نواز شریف جتنا حق تو بنتا ہی ہے‘ بلکہ اس سے بھی زیادہ ‘کیونکہ بد قسمتی سے انہیں اور بھی کافی بیماریاں لاحق ہیں ‘جو نواز شریف سے تعداد میں بہت زیادہ ہیں اور ان کی دلیری ملاحظہ ہو کہ اتنی بیماریوں کے باوجود جعلی اکائونٹس کا کاروبار بھی وہ پوری شجاعت سے انجام دیتے رہے اور اگر انہیں گرفتار نہ کیا جاتا‘ تو اسی طرح انہوں نے کئی اور کمالات کا مظاہرہ بھی کرنا تھا ‘جو اب ان کی رہائی تک خواہ مخواہ ملتوی ہو گئے ہیں ‘لیکن ہمیں کوئی فکر نہیں‘ کیونکہ ہمیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ہر کام کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے اور وہ اس سے پہلے انجام نہیں پا سکتا اور ہم قانونِ قدرت کے صحیح ماننے والوں میں سے ہیں۔ آپ سروسز ہسپتال میں میاں نواز شریف کی عیادت کے بعد میڈیا کے نمائندوںسے گفتگو کر رہے تھے۔
عمران وزراء کو بتائیں تلوار کا زخم بھر جاتا ‘ زبان کا نہیں: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''عمران صاحب وزراء کو بتائیں تلوار کا زخم بھر جاتا ہے‘ زبان کا نہیں‘‘ جیسا کہ میرے زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی رقم نکلوانے کے اعلانات سے موصوف کے زخم ابھی تک ہرے ہیں اور وہ انہیں اکثر یادبھی کرتے ہیں اور اب جو انہیں بے شمار بیماریاں لگی ہوئی ہیں‘ ان میں خاکسار کے لگائے ہوئے زخم بھی شامل ہیں‘ اس لیے زرداری سے عبرت حاصل کریں اور زبان کے زخم لگانے سے پرہیز کریں اور ان کے لگائے ہوئے زخموں کو میں روز دھویا بھی کرتا ہوں‘ لیکن ان کا میل کچیل پھر بھی باقی رہ جاتا ہے؛چنانچہ اب میں نے سوچا ہے کہ انہیں صابن سے دھویا کروں‘ تا کہ وہ صاف رہیں‘ جبکہ صفائی میں ہمارا ویسے بھی پورا ایمان ہے‘ جس میں ہاتھ کی صفائی بھی شامل ہے‘ لیکن اب وہ بھی میل کچیل میں تبدیل ہو رہی ہے‘ کیونکہ ہر روز حکومت ہمارے خلاف کوئی نہ کوئی نیا کیس نکال لیتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں متحدہ کے وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
تم بھی حد کرتے ہو
یہ فرہاد جبریل کا مجموعۂ غزلیات ہے ‘جسے علی زبیر پبلی کیشنز کراچی نے چھاپا ہے‘ انتساب والدین اور بھائی محمد امین قریشی کے نام ہے۔ اس کے دیباچے اظہارِ رائے کے نام پر ظہور الاسلام جاوید‘ علی زبیر‘ ڈاکٹر صباحت عالم واسطی اور نیر نیناں نے لکھے ہیں۔ پس سرورق شاعر کی تصویر اس شعر کے ساتھ ہے؎
جہاں شب ایڑیاں رگڑے وہاں مژدہ سنا دینا
یہاں تازہ سویرے کی ولادت ہونے والی ہے
اندرون سرورق بھی شاعر کے منتخب اشعار درج ہیں۔یہ شاعری کی کتابوں میں اضافہ ہے‘ شاعری میں نہیں‘ کیونکہ شاعری میں اضافہ تب ہوتا ہے کہ شاعری جہاں پہنچ چکی ہے‘ اس سے آگے کی بات کی جائے‘ کچھ اشعار دیکھیے:
لبریز نظر تو آتے ہیں‘ اندر سے مگر سب خالی ہیں
سب جھوٹے روپ کے درشن ہیں یہ جتنے لوگ مثالی ہیں
فرہادؔ ہماری امیدیں کیوں ساتھ ہمارا چھوڑ گئیں
کیا ہم نے پرائے لوگوں کی اولادیں لے کر پالی ہیں
اور‘ اب آخر میں ابرارؔ احمد کی یہ نظم:
منزلِ صبح
یہ جو معمورۂ دنیا ہے‘ یہاں\\ سب کے حصے کا سفر ہوتا ہے\\ سب کے قدموں میں لکھی ہوتی ہے\\ اک مسافت‘ کسی منزل کی طرف\\ ہم نے چل پھر کے بہت دیکھ لیا\\ ہر روش خاک اُڑا لی ہم نے\\ اور اس راہ کا\\ اک پھول ہو تم\\ پھول بھی سب سے الگ\\ جس کی خوشبو سے\\ مہکتے رہے ہم\\ جس کی رنگت سے\\ دمکتے رہے ہم\\ ہم تو اب‘ ٹھہرے چلے جاتے ہیں\\ اور آگے‘ بہت آگے کو\\ نکلنا ہے تمہیں\\ منزل ِصبح ہے\\ اور ٹھنڈی ہوا چلتی ہے\\ میرے بچے‘ سفر آغاز ہوا\\ جس جگہ پائوں پڑے\\ رنگ کھلے\\ جس طرف آنکھ اٹھے\\ قوس قزح بن جائے\\ جائو بچے\\ ہے قرینہ بھی یہی\\ ساعتِ وصل\\ جدائی کا مہینا بھی یہی\\ جب بھی تم لوٹ کے آئو\\ ہمیں پائو گے یہیں\\ انہیں دیواروں کے اندر\\ یا تہِ خاک کہیں!
آج کا مقطع
جو ڈاکوؤں سے ظفرؔ بچ رہے گے وہ خوش بخت
محافظوں کی حفاظت میں مارے جائیں گے

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں