"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘متن ‘ٹوٹا‘ درستی اور نذیر قیصر کی غزل

پنجاب کے لوگ نواز شریف اور شہباز 
شریف کو یاد کرتے ہیں: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''پنجاب کے لوگ نواز شریف اور شہباز شریف کو یاد کرتے ہیں‘‘ کیونکہ ان دونوں حضرات سے جو عبرت انہیں حاصل ہوئی ہے اور جو سبق انہوں نے سیکھا ہے ‘وہ انہیں زبانی یاد ہو چکا ہے؛ چنانچہ وہ دن کو انہیں یاد کرتے اور رات کو ڈرائونے خواب دیکھتے ہیں اور اکثر اوقات درمیان میں ہی چیخ مار کر اٹھ بیٹھتے ہیں‘ یہی ان کا معمول ہے اور وہ کچھ اور کرنے کے قابل ہی نہیں رہے‘ کیونکہ ان کے دور میں جو خوشحالیاں انہیں حاصل ہوئی ہیں‘ انہیں کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے اور اب ان کے اثاثے وغیرہ ضبط ہو رہے ہیں تو اس پر وہ بہت حیران ہیں کہ ان حضرات کی تو الٹا مدد کرنی چاہیے کہ خدمت اور قربانیاں دے دے کر ان کا یہ حال ہو گیا ہے‘ تاہم وہ انہیں احتیاطاً ایک ایک کر کے یاد کرتے ہیں‘ کیونکہ وہ دونوں کو اکٹھا یاد کرنے کے متحمل ہی نہیں ہو سکتے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہی تھیں۔
خان صاحب! آپ کے جانے کا وقت آ گیا : مولا بخش چانڈیو
پیپلز پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات مولا بخش چانڈیو نے کہا ہے کہ ''خان صاحب! آپ کے جانے کا وقت آ گیا ‘‘ اور میں چونکہ سیکرٹری اطلاعات ہوں‘ اس لیے اطلاع دینا میرا فر ض ہے‘ کیونکہ ہم اپنے قرض کی ادائی میں کبھی کوتاہی نہیں کرتے اور جو ہمارا اصل کام ہے‘ اسے بھی قرض سمجھ کر ہی سر انجام دیتے ہیں ‘اگرچہ اس کا نتیجہ کچھ اچھا نہیں نکل رہا ‘کیونکہ نک چڑھی حکومت کو ہمارا کام پسند ہی نہیں آیا؛ حالانکہ اس قرض کی ادائی ہم نے متحد ہو کر کی تھی اور اب سارے حیران ہو کر ہماری طرف دیکھ اور حساب کتاب کر رہے ہیں ؛حالانکہ ہم نے یہ کام کرتے وقت کبھی حساب کتاب نہیں کیا تھا اور سارا کچھ منہ زبانی ہی چل رہا تھا‘ کیونکہ ہمیں اپنے فرنٹ مینوں پر ہی اعتبار تھا اور بینکوں پر بھی‘ لیکن اب نیکی برباد اور گناہ لازم ہو رہا ہے؛ حالانکہ ہم نے گناہ کی کبھی شکل تک نہیں دیکھی ‘کیونکہ ہم سب اللہ والے لوگ ہیں اور بخشے ہوئے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
مولانا کامخمصہ
حضرت صاحب کا مارچ نا صرف شروع ہو چکا‘ بلکہ اب تک لاہور کوبھی اپنے قدوم میمنت لزوم سے سرفراز کر چکا ہوگا۔ آپ بار بار فرما رہے ہیں کہ عمران کا استعفیٰ لیے بغیر واپس نہیں جائوں گا۔ ظاہر ہے کہ محض کشمیر روڈ پر جلسہ یا دھرنا دینے سے یہ کام ہرگز نہیں ہو سکتا اور وہ خود بھی کہہ چکے ہیں کہ اقتدار کے ایوان میں داخل ہوں گے اور حکومت کو ایک دھکے ہی سے گرا دیں گے۔ علاوہ ازیں جب کشمیر روڈ کا میدان لوگوں سے بھر جائے گا تو یہ لوگ جو کم از کم پچاس لاکھ تو ہوں گے‘ وہ اگر اپنی جگہ پر رکے رہیں گے‘ تو وہاں کے ہسپتال‘ دکانیں‘ سکول وغیرہ بند ہو جائیں گے‘ نیز وہ وہیں کھڑے رہنے پر اکتفا نہیں کریں گے‘ بلکہ دھکم پیل کے ذریعے آگے بڑھیں گے اور مولانا کو بھی آگے بڑھنا پڑے گا اور یہی وہ لمحہ ہے‘ جب دما دم مست قلندر ہوگا‘ جس کے نتیجے میں مولانا اپنے بندوں کو مشقتی کروائیں گے اور خود بھی خوار و خستہ ہوں گے ‘جبکہ حکومت اپنی جگہ پر ڈٹی رہے گی‘ کیونکہ یہ تصادم ریاست سے ہوگا‘ حکومت سے نہیں!
ریکارڈ کی درستی
آج اخبار میں ایک صاحب نے شاعر مشرق علامہ اقبالؔ کا ایک شعر اس طرح نقل کیا ہے ‘جو کہ غلط ہے۔ ؎
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحر و بیکراں ہے زندگی
دوسرے مصرع میں ''بحر و بیکراں‘‘ کی جگہ ''بحرِ بیکراں ہے!
ہمارے ایک دیرینہ دوست نے اپنے کل والے کالم کا عنوان اس مصرعے سے جمایا ہے۔ ع
گلیاں ہون سنجیاں وچ مرزا یار پھرے
یہاں ''ہون‘‘ کی بجائے ''ہوون‘‘ ہے‘ جس سے مصرعے کا وزن بھی پورا ہو جاتا ہے؛ اگرچہ مطلب میں کوئی فرق نہیں پڑتا ‘تاہم مصرعے کی روانی متاثر ہوتی ہے۔
اور‘ اب صاحب ِطرز شاعر نذیر قیصر کی غزل:
ہم سخن ہوتا ہوا پانی سے
پھول کھلتا گیا آسانی سے
نیند جب آتی نہیں آنکھوں میں
خواب آتے ہیں فراوانی سے
صبح آغاز کیا کرتی ہے
تیرے ملبوس کی عریانی سے
کہیں سبزہ کہیں تارے نکلے
در و دیوار کی ویرانی سے
آسماں الٹا ہوا پیالہ سا
دشت چھلکے ہوئے حیرانی سے
اک پری چہرہ قدم رکھتی ہوئی
خاک پر تختِ سلیمانی سے
کھیت ہیں خون پسینہ میرا
روٹی کھاتا ہوں نمک پانی سے
جیسے حالات ہوئے جاتے ہیں
نوحہ بہتر ہے غزل خوانی سے
در سے مٹ جاتا ہے سجدے کا نشاں
داغ جاتا نہیں پیشانی سے
زندگی دیتی ہے بوسہ قیصرؔ
کبھی شعلے سے کبھی پانی سے
آج کا مطلع
میں روکتا نہیں آگے نکلنے والوں کو
نہ ٹوکتا ہوں کبھی ساتھ چلنے والوں کو

 

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں