"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘متن‘ درستی اور ضمیرؔ طالب کی شاعری

نواز شریف کی صحت کی خرابی کے ذمہ دار عمران خان ہیں: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کی صحت کی خرابی کے ذمہ دار عمران خان ہیں‘‘ کیونکہ وہ تو جیل میں کباب‘ کریلے گوشت اور کڑاہی وغیرہ جیسے پرہیزی کھانے کھا رہے تھے کہ عمران خان کا خیال آتے ہی اُن کی صحت خراب ہونا شروع ہو گئی‘ اسی طرح زرداری کی خرابیٔ صحت کے بھی عمران خان ہی ذمہ دار ہیں‘ اس لئے ہمارے نزدیک بیماری سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ عمران خان کا خیال بھی دل میں نہ لایا جائے؛ حتیٰ کہ جیل میں کیپٹن صفدر کی بھی اسی وجہ سے طبیعت ناساز ہو گئی‘ جنہوں نے عمران خان کا بس ذرا تصور ہی کیا تھا؛چنانچہ ہم نے انہیں کہہ دیا ہے کہ ہور چوپو! چنانچہ ملک ِعزیز کے عوام اگر چاہتے ہیں کہ اُن کی صحت برقرارر ہے تو وہ عمران خان کا کبھی خیال بھی دل میں نہ لائیں‘ اور اگر ایسا ہو جائے ‘تو ملک میں کوئی بیمار نہیں ہوگا‘ ہسپتالوں کو تالے لگ جائیں گے اور ڈاکٹر بیکار ہو کر اِدھر اُدھر جوتیاں چٹخاتے پھریں گے‘ اس سے زیادہ آسان نسخہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
سیاسی مقاصد کے لیے ا حتساب کے نام 
پر ڈھونگ رچایا جا رہا ہے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''سیاسی مقاصد کیلئے احتساب کے نام پر ڈھونگ رچایا جا رہا ہے‘‘ اور دو معصوم پارٹیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ جو اگر بقول شاعر:ع
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
کیونکہ پانی کی اس قدر کمی ہے کہ فرشتوں کو بھی دستیاب نہیں اور وہ ایسی نیک پاک سیاسی جماعتوں کے دامن نچوڑے جانے کے محتاج رہتے ہیں‘ اس لئے سب سے پہلے فرشتوں کیلئے پانی کا انتظام ہونا چاہیے اور اس کے بعد میرے وزیراعظم بننے کا بھی اہتمام روا رکھنا چاہیے‘ کیونکہ عمران خان نے تو میرے مارچ کے لاہور پہنچتے ہی مستعفی ہو جانا ہے ‘بلکہ اسے 14ماہ تک اس ملک کا غلط وزیراعظم بننے پر معذرت بھی کرنی چاہیے اور آئندہ ایسے کام سے توبہ کرنی چاہیے ‘کیونکہ میرے خیال کے مطابق‘ توبہ کے دروازے کھلے ہیں‘ جس سے موصوف کو فائدہ اٹھانا چاہیے‘ کیونکہ زندگی چند روزہ ہے اور توبہ کا دروازہ کسی وقت بھی بند ہو سکتا ہے‘ کیونکہ ہم سب کے کام ہی ایسے ہیں۔ آپ لاہور میں جلسے سے خطاب فرما رہے تھے۔
حکومت کیخلاف نکلنا جہاد کے مترادف ہے: اسفند یار ولی
عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفند یار ولی نے کہا ہے کہ ''حکومت کیخلاف نکلنا جہاد کے مترادف ہے‘‘ کیونکہ ہر اس حکومت کیخلاف نکلنا جہاد کے مترادف ہے‘ جو ہماری نہ ہو؛ بشرطیکہ اس میں سے غازی بن کر نکلیں ‘کیونکہ فی الحال ہم شہادت وغیر ہ افورڈ نہیں کر سکتے‘ کیونکہ ہم نے ابھی اور بہت سے مفید کام کرنا ہیں‘ جن میں کسی اور حکومت کیخلاف نکلنا بھی شامل ہے‘ لیکن مولانا فضل الرحمن کے جو آثار اور ارادے نظر آ رہے ہیں‘ اس میں غازی ہونا شاید ہی نصیب ہو۔آپ اگلے روز اسلام آباد سے ویڈیو پیغام نشر کر رہے تھے۔
حکمران قوم کو سبز باغ دکھانے سے باز نہیں آ رہے: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکمران قوم کو سبز باغ دکھانے سے باز نہیں آ رہے‘‘ اور میں انہیں آخری بار اس کام سے روک رہا ہوں اور اگر یہ پھر بھی باز نہ آئے تو میں کیا کر سکتا ہوں ‘کیونکہ میں تو ڈرتے ڈرتے بس دھمکی ہی لگا سکتا ہوں یا اگر یہ باغ دکھانے پر تُلے ہی ہوئے ہو تو سبز کی بجائے کسی اور رنگ کے باغ بھی دکھا سکتے ہیں‘ جبکہ کالا باغ تو ملک میں پلے سے ہی موجود ہے‘ اسے دکھایا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے اپنے علاقے سے بھی تعلق رکھتا ہے اور وہ پوری قوم کو ساتھ لے کر جا کر دکھا بھی سکتے ہیں ۔ آپ اگلے روز میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ریکارڈ کی درستی
ایک محترمہ نے آج اپنے کالم میں فیض ؔکا یہ شعر اس طرح درج کیا ہے ؎
ان دنوں رسم رہ شہر نگاراں کیا ہے
آج کل صورتِ بربادیٔ یاراں کیا ہے 
جبکہ مصرع اوّل کی صحیح صورت یہ ہے ؎
آج کل رسم و رہِ شہرِ نگاراں کیا ہے
اور اب آخر میں ضمیر ؔطالب کے تازہ اشعار:
آپ چاہے تو اجازت دے دیں
ویسے مجھ کو تو ضرورت نہیں ہے
نظر آتا ہی نہیں اپنی جگہ کوئی
جو کہیں ہے وہ کہیں لگ رہا ہے
اب مسیحائی پہ آمادہ ہے وہ
اب مجھے روگ نہیں لگ رہا ہے
آسماں پر نظر آیا جو تجھے
مجھے تو زیر زمیں لگ رہا ہے
اتنی شدت سے چپ ہوا ہوں میں
کہ گلا میرا بیٹھ سا گیا ہے
اُس نے پوچھا نہ بیٹھنے کو بھی
ہم نے سوچا تھا لیٹیں شیٹیں گے
مرے سوا نہ کوئی اور کر سکے جس کو
خدا کرے تجھے کام ایسا کوئی پڑ جائے
دھوپ اک جب سے پڑی ہے پیچھے
اک شجر ساتھ رکھا کرتا ہوں
فاصلہ تھا گرچہ کافی درمیاں
حُسن کا شور آ رہا تھا دُور تک
وہ مرے پاس آ کے بیٹھا تھا ضمیرؔ
دھیان میرا جا رہا تھا دُور تک
آج کا مطلع
وہ ایک طرح سے اقرار کرنے آیا تھا
جو اتنی دُور سے انکار کرنے آیا تھا

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں