تین دن دھرنا، پھر لڑ کر استعفیٰ لیں گے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''تین دن دھرنا، پھر لڑ کر استعفیٰ لیں گے‘‘ اور لڑنے کے لئے ہمارے مدرسوں کے طلبہ ہی کافی ہیں کیونکہ خاکسار کنٹینر میں بیٹھ کر تو نہیں لڑ سکتا اور پھر میری ابھی ملک کو ضرورت بھی ہے ۔طلبہ کو جنت کی نوید سنا دی گئی ہے البتہ یہ نوید میرے لئے نہیں ہے کیونکہ میں نے تو جنت سے بھی کہیں آگے نکلنا ہے، اول تو دھرنے کے پہلے دن ہی حکومت اپنا بوریا بستر گول کر لے گی، تاہم وہ تین دن تک اس موضوع پر سوچ بھی سکتی ہے، اگرچہ ہمیں مارچ کی اجازت اس نے سوچے سمجھے بغیر ہی دے دی ہے کیونکہ مارچ میں جو جو چیزیں شامل ہیں، حکومت ان کا تصور تک نہیں کر سکتی، اگرچہ ہم خود بھی اس کا تصور نہیں کر سکتے کہ حد کراس کرنے کے بعد ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ آپ اگلے روز مارچ کے حاضرین سے خطاب کر رہے تھے۔
عوام موجودہ حکومت کو نہیں مانتے: بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''عوام موجودہ حکومت کو نہیں مانتے‘‘ اور میں جو ملک کا سب سے بڑا عوام ہوں، اگر اسے میں ہی نہیں مانتا تو اور کسی کے ماننے نہ ماننے سے کیا فرق پڑ سکتا ہے اور اگرچہ اس وقت مجھے اپنے بیمار والد کے پاس ہونا چاہئے تھا ‘لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنی سنہری اننگز پوری کر چکے ہیں جبکہ خود ان کا بھی یہی خیال ہے اور اُن کا خیال ہمیشہ صحیح ہوتا ہے ماسوائے اس کے کہ جعلی اکاؤنٹس کے حوالے سے ان کا خیال تھا کہ یہ کسی کی سمجھ میں ہی نہیں آئیں گے لیکن حیرت ہے کہ احتساب ادارے کے شہ دماغوں نے ہی ان کا تیا پانچہ کر کے رکھ دیا ہے جن سے اس کی ہرگز امید نہیں تھی، تاہم کئی ثبوت تو خود بخود ہی غائب ہوتے جا رہے ہیں۔ آپ اگلے روز مولانا کے مارچ کا خیرمقدم کر رہے تھے۔
جمہوریت کے دعویداروں نے پٹرول سمیت
ہمارا سب کچھ بند کر دیا: غفور حیدری
جمعیت علمائے اسلام کے سیکرٹری جنرل سینیٹر عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ ''جمہوریت کے دعویداروں نے پٹرول سمیت ہمارا سب کچھ بند کر دیا ہے‘‘ حتیٰ کہ ڈیزل بھی دستیاب نہیں ہو رہا اور مولانا کے کنٹینر سمیت سبھی ٹرک محض اپنی وِل پاور کے سہارے ہی چل رہے ہیں جو بس اب ختم ہی ہونے والی ہے، حتیٰ کہ حلوے کی خوش خبری دے کر بھی گمراہ کیا گیا اور ہمیں سوچنے سمجھنے کا موقعہ ہی نہیں دیا جبکہ حلوے کا ذکر سن کر ہماری سوچ سمجھ ویسے بھی ڈھیلی پڑ جاتی ہے اور یہ سراسر فراڈ اور دھوکا ہے جو ہمارے ساتھ روا رکھا گیا ہے اور اگر راستے میں نواز لیگ کے کچھ کارکن نان حلوے سے ہماری خدمت نہ کرتے تو ہم شاید یہاں تک بھی نہ پہنچ پاتے اور یہ بات بالکل غلط ہے کہ ہر روز عید نیست کہ حلوہ خوردکسے جبکہ عید کے روز تو حلوہ کھانے کا مطلب حلوہ کھاتے کھاتے بے ہوش ہو جانا ہے۔ آپ اگلے روز پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
الحمراء کا تازہ شمارہ
ماہنامہ الحمراء کا تازہ شمارہ حسب معمول اپنے وقت پر شائع ہو گیا ہے جسے لاہور سے شاہد علی خاں نکالتے ہیں۔ سرورق ہمیشہ کی طرح اسلم کمال نے بنایا ہے۔ یہ اس کا شمارہ نمبر10 ہے۔ آغاز میں حمد و نعمت کے بعد مولانا حامد علی خاں کی غزل شائع کی گئی ہے۔ مضمون نگاروں میں پروفیسر فتح محمد ملک، جمیل یوسف، ڈاکٹر اے بی اشرف، مسلم شمیم، ڈاکٹر انور محمود خالد، ڈاکٹر فرحت عباس‘ سلمیٰ اعوان اور دیگران شامل ہیں۔نظم نگاروں میں ستیہ پال آنند، سید ریاض حسین زیدی، رشید آفریں اور دیگران جبکہ آپ بیتی اور متفرقات اسلم کمال، جاوید اختر چودھری، ڈاکٹر فیروز عالم، جمیل یوسف اور سید معراج جامی کے قلم سے ہیں۔ سفر نامے ڈاکٹر عطیہ سید، سیما پیروز‘ڈاکٹر عظمیٰ سلیم اور تسنیم کوثر کے قلم سے ہیں۔ غزل گوؤں میں خاکسار کے علاوہ خورشید رضوی، نذیر قیصر، جمیل یوسف، اسلم گورداسپوری، حسن عسکری کاظمی، غالب عرفان‘ نسیم سحر، شوکت کاظمی اور دیگران ہیں، افسانے ڈاکٹر فیروز عالم، ابدال بیلا‘دردانہ نوشین اور گوشہء مزاح اور کتابوں پر تبصرے شامل ہیں۔
اور، اب آخر میں اس ہفتے کی غزل:
جہاں گمان کریں گے وہیں تو ہے موجود
ہمارے پاس نہیں، وہ کہیں تو ہے موجود
ہمارے سر پہ اگر آسماں نہیں، پھر کیا
ہمارے پاؤں کے نیچے زمیں تو ہے موجود
اگر وہ ہے تو کسی روز آ ہی نکلے گا
یہ لڑکھڑاتا ہوا سا یقیں تو ہے موجود
کچھ اس قدر نہیں تنہائیاں ہماری بھی
جو وہ نہیں ہے تو اُس کی کمی تو ہے موجود
وہ اپنی چاندنی بکھرا رہا ہے اور کہیں
ہمارے بام پہ ماہِ مبیں تو ہے موجود
سنپولیابھی کہیں کوئی مل ہی جائے گا
کٹی پھٹی ہوئی یہ آستیں تو ہے موجود
مکان سے ذرا بے دخل کر دیا گیا ہے
سڑک پہ گھوم رہا ہے، مکیں تو ہے موجود
ہماری لاش بھلے تیرتی رہے اُوپر
کہ اپنا رختِ سفر تہہ نشیں تو ہے موجود
ظفر کی صورت ِاحوال اس طرح سے ہے اب
جو ہے تو گم شدہ ہے، جو نہیں تو ہے موجود
آج کا مقطع:
سفینہ سمت بدلتا ہے اپنے آپ ظفر
کوئی بتاؤ مرا بادباں کہاں گیا ہے