جمہوریت پر سمجھوتے کیلئے دبائو ڈالا جا رہا ہے: بلاول بھٹو زرداری
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''جمہوریت پر سمجھوتے کیلئے دبائو ڈالا جا رہا ہے‘‘ حالانکہ یہ سمجھوتہ دبائو کے بغیر بھی ہو سکتا ہے؛ بشرطیکہ ہمارے دبائو کو تسلیم کیا جائے ‘جو اب صرف میرا ہی رہ گیا ہے‘ جو محض برائے نام ہے‘ کیونکہ والد صاحب تو ہسپتال میں ہیں کہ اصل دبائو انہی کا تھا ؛حالانکہ جعلی اکائونٹس کیس میں میری کارگزاری ‘ان سے کہیں زیادہ ہے؛ تاہم مجبوراً مولانا صاحب ہی کے دبائو سے کام لینے کی کوشش کی جا رہی ہے ‘جبکہ دھرنا اور مارچ بھی آخری دموں پر ہیں اور ان کا کوئی مطالبہ بھی تسلیم نہیں کیا جارہا؛ حالانکہ مولانا کا اپنا دبائو ہی کافی ہے‘ کیونکہ دبائو بہر حال وزن ہی کے زور پر ہوتا ہے‘ جو اتنا عرصہ بیروزگار رہنے کے باوجود اب بھی کافی سارا موجود ہے۔ آپ اگلے روز اُوچ شریف میں خطاب کر رہے تھے۔
مقصد کے قریب ہوتے چلے جا رہے ہیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''مقصد کے قریب ہوتے چلے جا رہے ہیں‘‘ کیونکہ جوں جوں لوگ کم ہوتے جا رہے ہیں ‘توں توں مقصد بھی قریب ہوتا چلا جا رہا ہے ‘یعنی بوریا بستر لپیٹ کر واپسی‘ کیونکہ شرکاء یہاں زیادہ تر کھیل کود ہی میں مشغول رہے ہیں اور مفت کی روٹیاں بھی توڑتے رہے ہیں‘ جبکہ نون لیگ اور پی پی پی نے دھرنے اور پیش قدمی میں شریک ہونے سے تو صاف انکار کر دیا ہے‘ جبکہ مارچ میں شرکت کے لیے طوعاً وکرہاً تیار ہوئے ہیں ‘جو سراسر دھوکا اور زیادتی ہے۔ بندہ پوچھے مارچ میں شریک کر کے میں نے ان کا اچار ڈالنا ہے؟ کیونکہ اچار ہمارے پاس پہلے ہی کافی موجود ہے‘جو طلبا اپنے ساتھ لے آئے تھے‘ تا کہ مفت کی روٹیاں ہضم کرنے کے کام آ سکے‘ جبکہ میرا وزیراعظم بننے کا خواب بھی پریشان ہو رہا ہے‘ لیکن میں خود اس سے بھی زیادہ پریشان ہوں‘ کیونکہ واپسی کے لیے بھی تو کوئی معقول بہانہ چاہیے‘ جو کہ دستیاب ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ آپ اگلے روز آئندہ کے لیے حکمت عملی کے بارے گفتگو کر رہے تھے۔
اسحاق ڈار کے حق میں فیصلہ انکی بیگناہی کا ثبوت : مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اور نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''اسحاق ڈار کے حق میں فیصلہ ان کی بے گناہی کا ثبوت ہے‘‘ کیونکہ ہم انٹرپول کو بھی باقاعدہ عدالت سمجھتے ہیں‘ اس لیے یہاں سے جملہ جھوٹے مقدمات میں ان کو فارغ کر دینا چاہیے‘ ورنہ وہ خود آ کر ہمارے قائد کی طرح ان عدالتوں سے سرخرو ہو جائیں گے‘ کیونکہ فی الحال تو ڈاکٹروں نے انہیں سفر کرنے سے منع کر دیا ہے‘ تاہم وہ نواز شریف کو یہاں باہربھجوانے پر زور دے رہے ہیں‘ کیونکہ وہ انہی سے شفا یاب ہو سکتے ہیں‘ جبکہ ان کی تیمار داری کیلئے مریم نواز کا بھی ساتھ ہونا بیحد ضروری ہے ‘کیونکہ یہاں ان کے بیٹے اور بہوئیں اپنی کاروباری مصروفیات کی وجہ سے یہ کام نہیں کر سکتے‘ جبکہ اسحاق ڈار تو واپس آنے کیلئے بہت بے تاب ہیں اور کئی بار انہیں اپنا باندھا ہوا سامان دوبارہ کھولنا پڑا ہے‘ کیونکہ ڈاکٹروں کو ان کی روانگی کا پتا چل گیا تھا۔ اب تو ڈاکٹروں نے ان پر پہرہ بٹھا دیا ہے کہ کہیں وہ اپنی صحت کے معاملات کو نظر انداز کرتے ہوئے واقعی میں بھاگ نہ جائیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہی تھیں۔
فی الحال ملک میں عمران خان کا کوئی متبادل نہیں: فواد چوہدری
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد حسین چوہدری نے کہا ہے کہ ''فی الحال ملک میں عمران خان کا کوئی متبادل نہیں‘‘ البتہ میں اپنی سی کوشش کر رہا ہوں‘ بلکہ اپنے ماتحت جملہ لیبارٹریوں کو بھی ٹاسک دے دیا ہے کہ وہ اس ضمن میں اپنی کسی ایجاد کے ذریعے اس کام کو ممکن بنا سکیں‘ کیونکہ مولانا صاحب کا دبائو شاید اب وہ اور برداشت نہ کر سکیں؛ چنانچہ اس صورت میں میرا چانس تو نکل ہی سکتا ہے‘ کیونکہ پارٹی میں اور کوئی اس قابل نہیں کہ وہ یہ بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا سکے‘ کیونکہ جمہوریت کو کندھا دے دے کر وہ پہلے ہی بہت نڈھال ہو چکے ہیں ‘جبکہ میں روزانہ ویٹ لفٹنگ کی ایکسر سائز بھی کیا کرتا ہوں اور بہت جلد اس قابل ہو جائوںگا کہ حکومت کا یہ ہلکا پھلکا بوجھ اپنے تنومند کندھوں پر اٹھا سکوں‘ اور اگر عمران خان نے استعفیٰ نہ بھی دیا تو کچھ عرصہ بعد یہ موقعہ پھر بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ دنیا امید پرقائم ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں رفعت ناہید کی شاعری:
اترے جو ذرا شب کی خماری تری جس دم
اور آنکھ کھُلے نیند کی ماری تری جس دم
پھر دیکھ مجھے ہو گئی قربان میں تجھ پر
اور جھٹ سے نذر میں نے اتاری تری جس دم
سرکے ہی چلے آتے تھے ماتھے پہ یہ گھونگھر
سنورا ہے بہت‘ زلف سنواری تری جس دم
بھنورا سی بنی پھرتی ہوں میں صحنِ چمن میں
گلگشت کو آتی ہے سواری تری جس دم
خوشبو میں کوئی عطر سا پیغام بھی ہو گا
گلیوں میں چلی بادِ بہاری تری جس دم
جھُولا میں جھلائوں گی تجھے پی کے نگر کا
آئے گی سکھی پینگ کی باری تری جس دم
.........
پھر مرے دریچے میں بارشوں کی سرگوشی
نرم نرم بوندوں کی آہٹوں کی سرگوشی
کھول دوں میں دروازہ‘ روز کون آتا ہے
رات کے اندھیرے میں دستکوں کی سرگوشی
منتظر ہے شہزادہ دوسرے جزیرے پر
جل پری کی آنکھوں میں آنسوئوں کی سرگوشی
آج کا مقطع
ایک سناٹا سا ہے چھایا ہوا ہر سو‘ ظفرؔ
اور اس میں یہ ہماری آخری آواز ہے