"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن اور عامرؔ سہیل کی تازہ غزل

دھرنا ختم کرانا ہے تو نئے الیکشن کرائے جائیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''دھرنا ختم کرانا ہے تو نئے الیکشن کرائے جائیں‘‘ اگرچہ نئے الیکشن میں بھی میں نے ہار جانا ہے‘ اوپرسے بارش نے دھرنے کو نہلا دھلا دیا ہے اور شرکاء میری جان کو کوس رہے ہیں؛ حالانکہ یہ حضرات نا صرف دس دس روٹیاں کھاتے رہے ہیں‘ بلکہ کھیل کود میں بھی لگے رہتے ہیں‘ جس سے سارا دھرنا ہی ایک کھیل میں تبدیل ہو کر رہ گیا ہے‘ تاہم جس طرح وزیراعظم کے استعفیٰ سے پیچھے ہٹا ہوں اسی طرح نئے الیکشن سے بھی باز آ سکتا ہوں‘ لیکن اس بند گلی سے نکلنے کا کوئی مناسب راستے بھی تو ہو؛ البتہ آج چوہدری شجاعت حسین کے گھر سے حلوہ کھانے کے بعد طبیعت کافی بشاش ہے‘ اس لئے وزیراعظم اپنے آپ کو مستعفی ہی سمجھیں کیونکہ مارچ کی شکل میں سارا پاکستان اُن سے استعفے کا مطالبہ کر چکا؛ اگرچہ دونوں بڑی جماعتوں نے میرے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا اور وقت آنے پر بہانے بازیاں کر رہے ہیں اور اس طرح میرے ساتھ اپنی عاقبت بھی خراب کر رہے ہیں۔ آپ اگلے روز دھرنے سے خطاب کر رہے تھے۔
دھرنے میں شریک ہو جاؤں یا نہیں‘ کارکن مشورہ دیں: بلاول 
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''دھرنے میں شریک ہو جاؤں یا نہیں‘ کارکن مشورہ دیں‘‘ کیونکہ دھرنے سے اسی طرح جان چھڑائی جا سکتی ہے کہ کارکن ایسا نہیں کرنے دیتے؛ حالانکہ ہم نے کارکنوں کو کبھی گھاس نہیں ڈالی‘ کیونکہ ان کا کام ووٹ دینا‘ ریلیوں اور جلسوں میں شامل ہونا ہے‘ جس طرح حکومت میں آ کر ہمارا کام صرف خدمت کرنا ہے ‘جو دن رات کرنا پڑتی ہے‘ تاکہ زیادہ سے زیادہ خدمت اکٹھی کر کے بیرون ملک بھجوائی جا سکے اور بیرون ملکی لوگ بھی محنت کرنا سیکھیں‘ لیکن اب ہاتھوں سے لگائی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑ گئی ہیں اور اس کوشش میں آدھے دانت ٹوٹ چکے ہیں‘ جبکہ والد صاحب کو تو پورا ڈینچر لگوانا پڑا ہے‘ کیونکہ ہر کام کیلئے دانت تیز بھی کرنا ہوتے ہیں‘ جبکہ حکومت وغیرہ کے دندان شکن جواب سے بھی دانتوں کا کافی نقصان ہو جاتا ہے اور دانت نکالنے‘ یعنی ہنسنے کا بھی کوئی موقعہ نہیں ملتا اور اس ضمن میں دانت کھٹے بھی ہو جاتے ہیں اور دانت نہ ہونے سے پوپلا منہ بھی کچھ اچھا نہیں لگتا۔ آپ اگلے روز ملتان میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
عمران خان کی ٹیم تو ہے نہیں‘ کپتان بھی نااہل ہے: کائرہ
پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر قمرزمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''عمران خان کے پاس ٹیم تو ہے نہیں‘ کپتان بھی نااہل ہے‘‘ اگرچہ اہلیت ہمیں تو خاصی مہنگی پڑی ہے اور ایک طرح سے ہماری آدھی قیادت اندر ہے‘ جبکہ مراد علی شاہ کو کسی وقت بھی ہراساں کیا جا سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر کہ بلاول کے گرد بھی گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے‘ لیکن کوئی بات نہیں‘ اگر وہ بھی اندر ہو گئے تو خاکسار ان کی جگہ پُر کرنے کیلئے بالکل تیار ہے ۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس کر رہے تھے۔
حکومتی اقدامات سے جمہوریت بند گلی میں جا چکی ہے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''غلط حکومتی اقدامات سے جمہوریت بند گلی میں جا چکی ہے‘‘ حالانکہ اسے صحیح اقدامات سے بھی بند گلی میں دھکیلا جا سکتا تھا‘ اور اب اس بند گلی سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ جہاں اس بند گلی میں داخل ہوئی تھی‘ وہیں سے باہر نکل جائے‘ لیکن المیہ یہ ہے کہ حکومت کو کوئی اچھا مشورہ دینے والا بھی نہیں‘ جبکہ میں یہ کام اعزازی طور پر بھی کرنے کیلئے تیار ہوں ‘کیونکہ آخر یہ ہماری حکومت ہے‘ اسے مفید مشورے بھی کافی تعداد میں دستیاب ہونا چاہئیں‘جبکہ بذریعہ فون بھی مجھ سے قیمتی مشورہ حاصل کیا جا سکتا ہے؛ چنانچہ احتیاطی طور پر میں اپنا موبائل نمبر واٹس اپ کر رہا ہوں‘ تاکہ اس سے استفادہ کیا جا سکے ‘کیونکہ نیک کام میں ویسے بھی دیر نہیں کرنی چاہیے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا کے نمائندوںسے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں عامرؔ سہیل کی تازہ غزل:
جو تم سے بچھڑوں تو کوئی خُدا نصیب نہ ہو
کسی مزار کی آب و ہوا نصیب نہ ہو
میں ہجر ہجر پکاروں تری محبت میں
شکست دل پہ گرے‘ راستہ نصیب نہ ہو
لبوں سے پہلی تلاوت چھنے دُکھوں والی
تمہارے چہرے کا یہ چوکھٹا نصیب نہ ہو
تمہارا دل جو دُکھائیں تو شاعری رُوٹھے
جو تم سے جھوٹ کہیں تخلیہ نصیب نہ ہو
ترے علاوہ کسی اور کو نصیب کریں
تو یہ لحاف میں لپٹی ادا نصیب نہ ہو
اب ایسا کیا کوئی رُخسار واسطہ نہ بنے
اب ایسا کیا کہ تمہارا پتا نصیب نہ ہو
وہ ڈوریا نہ کھلے جس پہ دستِ گل پھسلے
گلہ کریں تو وہ بندِ قبا نصیب نہ ہو
تمہارا لمس کریں زیب تن کہ رُت نہ بجھے
گھروں سے فجر کو نکلیں عشاء نصیب نہ ہو
کسی پری کے نشیلے بدن کا پیمانہ
بدن پہ خالی کریں‘ آئنہ نصیب نہ ہو
لبوں سے لب نہ ملیں‘ اشتہا نصیب نہ ہو
بنامِ جسم کوئی معجزہ نصیب نہ ہو
یہ عشق ہے کہ بغاوت بھرے جہانوں کی
بھٹکتا ایک رہے‘ دوسرا نصیب نہ ہو
آج کا مقطع
برابر ہیں ظفرؔ میرے لیے تحسین و تنقیص
میں اپنا کام ان سے ماورا کرتا رہوں گا

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں