جس طرح ہم چلا رہے ہیں‘ ملک اس
طرح ترقی نہیں کر سکتا: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''جس طرح ہم چلا رہے ہیں‘ ملک اس طرح ترقی نہیں کر سکتا‘‘ بلکہ ہم ملک کو چلا ہی کب رہے ہیں‘ بیچارہ اپنے آپ ہی چل رہا ہے اور یہ گاڑی ؎
کمالِ ڈرائیور نہ انجن کی خوبی
چلے جا رہی ہے خدا کے سہارے
جبکہ ہم بڑے کارساز ہیں‘ ہم کاریں بھی بناتے ہیں اور گاڑیاں وغیرہ بھی اور ہم ان میں بیٹھتے ہیں اور بیٹھے بیٹھے تھک بھی جاتے ہیں ‘ کیونکہ ان میں نہ کھڑا ہونے کی گنجائش ہے ‘نہ لیٹنے کی‘ جبکہ کچھ نہ کرنا بھی ایک پوری مشقت ہے اور ہم اس مشقت سے بطریقِ احسن عہدہ برآ ہو رہے ہیں‘ کیونکہ یہ ہمارے عہدے کا بھی تقاضا ہے‘ جو بڑے پاپڑ بیل کر حاصل کیا گیا ہے‘ جس کی وجہ سے لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں اور انہیں اس کا علاج کروانا چاہیے اور اگر دم‘ یا تعویذ مطلوب ہوں تو وہ بھی مہیا کئے جا سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں سینئر سرکاری افسروں سے ملاقات کر رہے تھے۔
شورٹی بانڈ مانگنا منفی سیاست کی بدترین مثال ہے: حسین نواز
مستقل نا اہل اور سزایافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے مفرور صاحبزادے حسین نواز نے کہا ہے کہ ''شورٹی بانڈ مانگنا منفی سیاست کی بدترین مثال ہے‘‘ اور اگر وہ واپس نہیں بھی جاتے تو اس سے کسی کا کیا بگڑتا ہے‘ جبکہ ہم دونوں بھائی‘ انکل اسحاق ڈار‘ چچا جان کا صاحبزادہ اور داماد‘ اگر یہاں آ کر واپس نہیں گئے تو اس سے کسی کا کیا بگڑا ہے‘ جبکہ وہ یہاں ہمیں خدمت کا موقعہ دینے کیلئے آ رہے ہیں؛ البتہ یہ وہ خدمت نہیں‘ جو وہ بطور وزیراعظم پاکستان کرتے رہے ہیں اور جس کی وجہ سے ان کیخلاف کارروائیاں ہو رہی ہیں‘ بلکہ ہم انہیں مشورہ دیں گے کہ برطانوی شہریت اختیار کر لیں اور ہماری طرح موجیں کریں کہ یہاں ان پر کسی مقدمے کا اثر ہو‘ نہ کسی ڈگری کا‘ جبکہ وہاں کا سارا محاذ باجی مریم نواز سنبھال لیں گی؛ بشرطیکہ وہ اندر نہ ہو گئیں۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
دھرنا ختم‘ اب سڑکیں بند کریں گے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''دھرنا ختم‘ اب سڑکیں بند کریں گے‘‘ بشرطیکہ ہمیں ہی بند نہ کر دیا گیا‘ بلکہ زیادہ امکان یہ ہے کہ دھرنے کی طرح سڑکیں بھی خود ہی کھولنا پڑیں گی اور حکمرانوں کی بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ نکلنے کا کوئی راستہ ہی نہیں دیا اور میرے پاس وہی چند کروڑ باقی رہ جائیں گے‘ جو اس مد میں دیئے گئے تھے‘ جبکہ یہ بھی گھاٹے کا سودا نہیں ؛ اگرچہ میری سیاست کا تو بولو رام ہو جائے گا‘ جبکہ سیاست میں رہ کر بھی دانہ دُنکا ہی اکٹھا کرنا ہے ‘ تو یہ توشہ جو زندگی بھر کیلئے کافی ہے‘ اسی پر اکتفا کیا جا سکتا ہے‘ کیونکہ اگر شرکاء پر پولیس کی طرف سے صرف پانی ہی پھینکا گیا تو آدھے سے زیادہ شرکاء نمونیے میں مبتلا ہو جائیں گے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ پانی کنٹینر پر اثر ہی نہیں کرتا؛ اگرچہ آنسو گیس اور لاٹھی چارج اس کے علاوہ ہوں گے‘ یعنی جو پانی سے بچیں گے‘ وہ اس طرح کام آ جائیں گے ۔ آپ اگلے روز دھرنا شرکا سے خطاب فرما رہے تھے۔
نواز شریف کو کچھ ہو گیا تو یہ ملک پر دوسرا گھائو ہو گا: خواجہ سعد رفیق
سابق وزیرریلوے اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کو کچھ ہو گیا تو یہ ملک پر دوسرا گھائو ہو گا‘‘ کیونکہ پہلا گھائو میری گرفتاری سے لگ چکا‘ جبکہ تیسرا گھائو میری سزا یابی سے لگے گا اور ملک ِعزیز اس سے زیادہ زخموں کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا‘ کیونکہ ایسے زخموں پر تو کھرنڈ بھی نہیں آتا اور یہ ہرے کے ہرے ہی رہتے ہیں اور صرف ساون کے اندھوں کو ہی نظر آتے ہیں ‘جبکہ اندھوں کے ساتھ ملک ِعزیز میں پہلے ہی کچھ اچھا سلوک نہیں ہو رہا اور بیچارے بالعموم دھرنوں میں ہی رہتے ہیں‘ البتہ عقل کے اندھے موجیں کر رہے ہیں اور بادل بھی گرجے تو انہیں سنائی نہیں دیتا ‘ یعنی بقول شاعر ؎ :
بہرا ہوں میں تو چاہیے دونا ہو التفات
سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر
آپ اگلے روز احتساب عدالت سے باہر‘ میڈیا کے نمائندوںسے بات چیت کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں رفعت ناہید کی یہ غزل:
ملنا بہت ضروری ہے
ہجر کی رات عبوری ہے
آدھی میں وہ سب کہہ جائے
پوری بات ادھوری ہے
کس بستی میں رہتے ہو
آخر کتنی دُوری ہے
تم بھی دیر سے ملتے ہو
میری بھی مجبوری ہے
سوکھ گئی ہے یاد کی بیل
پیلی‘ کالی‘ بھوری ہے
برکھا رات کو برسی تھی
آج ہوا کستوری ہے
پہلو میں دل ہے سوزاں
عشق کی آگ تنوری ہے
پیار میں دُھول ہُوا دیوانہ
نہ ناری نہ نوری ہے
باتیں ہیں اور گھاتیں ہیں
طوطا ہے اور چُوری ہے
پتا نہیں چلتا ناہیدؔ
دُوری ہے کہ حضوری ہے
آج کا مطلع
لالو لال ٹماٹر
اس کے گال ٹماٹر